مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر 25 جولائی کو ‘بلیک ڈے سے تعبیر کرتے ہوئے آج سے دو سال پہلے منعقد ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھایا جارہا ہے اور باور کروایا جا رہا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ کو بوٹوں تلے روندھ کر موجودہ حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں تو ملک میں 80 کی دہائی کے بعد حکومت کرنے والی دو جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جگہ کسی نئے فرد کو نجات دہندہ کے طور پر سامنے لانے کے عمل کا آغاز تو الیکشن کے انعقاد سے بہت پہلے ہوچکا تھا اور ہر باشعور فرد بخوبی جانتا تھا کہ مقتدر اداروں نے تحریک انصاف کو حکومت دینے کی ٹھانی ہے۔
مقتدر اداروں کی خواہش اور اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے ان کے تمام تر اقدامات اپنی جگہ لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ اس خواہش کو پوری نہ ہونے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟ تحقیق کر کے دیکھ لیں جواب نہیں ملے گا کہ اس وقت بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی صف اول کی قیادت اپنے لیے رعائتیں حاصل کرنے اور کچھ نہ کچھ حصہ پانے کی بھاگ دوڑ کے سوا کچھ نہیں کررہی تھیں۔ عوامی مینڈیٹ چرائے جانے کا رونا رونے والوں کی اکثریت بھی عملاً یہ تسلیم کیئے بیٹھی ہے کہ اقتدار کی کنجیاں عوام کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ ان نادیدہ ہاتھوں میں ہیں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے اب کی بار یہ کنجیاں تحریک انصاف جی جھولی میں کیوں ڈالیں لیکن دبے دبے لہجوں میں الزام لگانے والے خود بھی انھی ہاتھوں کے بوسے لینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں بشرطیکہ وہ ہاتھ ان کے سروں پر شفقت سے پھرنے پر مائل ہوں۔
دنوں کو ‘وائیٹ اور ‘بلیک قرار دینے سے پہلے اپنی طرز سیاست کا بھی جائزہ لیا جائے۔ یہ الزام اپنی جگہ کہ انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا لیکن اس پر بھی سوچا جائے کہ کیا آج بھی ہمارے ملک کی سیاسی قیادت مستقبل میں کسی ایسی واردات کو روکنے کی ہمت رکھتی ہے؟مجھے تو ہر کوئی رضا کارانہ طور پر سر جھکائے نظر آرہا ہے۔ ‘سیلف سنسر شپ کی پالیسی اختیار کرنے والے صرف ہاؤ ہو ہی کرسکتے ہیں۔ عملی اقدامات اٹھانے کی سکت نہ ہو تو واویلا بے معنی ہوجاتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد سیاست کی ناؤ خود سیاست دانوں کے ہاتھوں ڈبو رہی ہے۔