موجودہ حکومت کے بارے میں تو الیکشن سے پہلے ہی الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی تھی اور ناقدین اس خدشے کا اظہار کیئے جارہے تھے کہ کچھ غیر مقبول فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے خان صاحب کی صورت میں ایک معروف شخصیت کو سامنے لایا جارہا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس اندیشے کا اظہار بھی ہوتا رہا کہ یہ سب کچھ ملک میں جمہوری تسلسل کو یرغمال بنانے اور نظام کی بھاگ دوڑ کچھ نادیدہ ہاتھوں میں دینے کے لیے ہے۔اس ضمن میں پالیسی سازوں نے عمران خان کی پروجیکشن کرکے عوام کی اجتماعی سوچ کو انتہائی کامیابی کے ساتھ ایک خاص طرف موڑا اور عام آدمی کو یہ باور کروایا جانے لگا کہ اس کے لیے اگر کوئی نجات دہندہ ہے تو وہ عمران خان کی ذات ہے، اس سلسلے میں جنرل پاشا کی مہربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں۔
خود عمران خان نے گزشتہ دور حکومت میں ایوان میں موجود اپوزیشن سے حد درجہ مؤثر اپوزیشن کرتے ہوئے چند نشستوں پر مبینہ دھاندلی کو جواز بناکر اسلام آباد کے ڈی چوک کو کئی مہینوں تک جس کامیابی کے ساتھ سیاسی اکھاڑہ بنائے رکھا اور ان دنوں میں عوام کو حکومت کی کرپشن، لوٹی ہوئی دولت کی وصولی ، اشیاء کے بھاؤ اور اس پر حاصل کیئے جانے والے ٹیکسز کے بارے میں جس بہترین انداز میں آگاہی دی، اور دیگر جو سہانے خواب دکھائے اس کی وجہ سے تحریک انصاف نئی نسل کو بڑی حد تک اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
ناکامی کے امکانات کو ختم کرنے کے لیئے مختلف ذرائع سے الیکٹیبلز کی تحریک انصاف میں شمولیت بھی کروائی گئی اور انتخابات سے پہلے عطا کردہ امتیازی مقام اور کھلے میدان کے باوجود انتخابات کے نتائج روکے رکھے گئے اور جب حتمی نتائج مرتب ہوئے تو تحریک انصاف اکثریت کی حامل جماعت قرار پائی اور یوں تحریک انصاف کے لیے ممکن ہوا کہ کچھ کم وزن کی حامل جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرے اور ملک میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگئی۔
ابتداء میں جناب عمران خان کے دعوؤں اور چیختے چنگھاڑتے وعدوں نے عوام کی اکثریت کو اس خوش فہمی میں مبتلا کر رکھا تھا کہ ایک دیانت دار فرد کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد ان کی تقدیر بدل جائے گی اور ان کے خوشحالی کے سپنے پورے ہونے لگیں گے لیکن المیہ کہ نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی محسوس ہونے لگا کہ ملک کی گاڑی کسی غلط سمت چل پڑی ہے اور ہماری عسکری تجربہ گاہ کے اس سیاسی تجربے کے نتائج پہلے کے تجربات سے زیادہ مایوس کن ہیں اور عوام پر نت نئے ٹیکسز کا بوجھ اور مہنگائی کے پہاڑ لادنے کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں ایسے ایسے تاریخی بلنڈرز انجام دیئے جانے لگے جس کو بھگتنے کی یہ قوم روادار نہیں تھی۔
اندرونی محاذ پر لاقانونیت، جبری گمشدگیاں، بولنے والوں کی زبان بندی، کاروبار کے مواقع مسدود کیئے جانے، انتظامی معاملات میں شدید بد انتظامی، ذخیرہ اندوز مافیہ کی من مانیاں، اہم قومی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کی کوششیں اور دیگر کئی ایسے معاملات دیکھنے میں آئے جس نے عوام کے دلوں میں حکومت بالخصوص خان صاحب کی مقبولیت کے گراف کو تنزلی کی راہ دکھائی اور تبدیلی کے خواہاں ان نوجوانوں کو عمران خان اور تحریک انصاف کی حمایت پر شرمسار کیا اور انھی نوجوانوں کی طرف سے جنھوں نے اس حکومت کے قیام کے لیئے سرگرم کردار ادا کیا تھا ، سوشل میڈیا پر طرح طرح سے یہ ٹرینڈ گردش کرنے لگے کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے پر نادم ہیں۔
خود مقتدر حلقوں کو احساس ہوا کہ ان کے تجربے کے نتائج توقع کے خلاف ہیں تو انھوں نے اپنی ناکامی کا برملا اظہار کرنے کی جرات کرنے کے برعکس مائنس ون ، مائنس ٹو کے شوشے چھوڑنے شروع کیے اور غیر محسوس انداز میں سسٹم کی ناکامی کو ایک فرد یا چند افراد سے منسوب کرکے انھیں قربانی کے بکرے بنانے کی تیاری میں مگن ہوئے تا کہ عوام کی فرسٹریشن کم ہو اور ناکارہ پرزوں سے ترتیب دیئے گئے اس انجن کو کسی طور چلتا دکھایا جانا ممکن رہے۔
تمام تر اختلافات کے باوجود ایک عام آدمی کی حیثیت سے اس موقعے پر حکمران جماعت کو کوسنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ملک میں حکمرانی کے ڈھانچے کو سمجھا جائے اور اس کے ہر کردار کے ذمے معین کاموں کا جائزہ لینے کے بعد درستگی سے فیصلہ ہو کہ کسی بھی حکومت کی ناکامی کسی ایک فرد کے سر ڈالنا منصفانہ عمل ہے یا یہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہر فرد کی ناکامی ہے، بھلے وہ حکومتی بینچز پر براجمان ہو یا اپوزیشن کی نشتوں پر جلوہ افروز ہو۔
ملک کا نظام حکومت وفاقی پارلیمانی طرز کا ہے، جس میں صدر مملکت ریاست کا علامتی سربراہ اور افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے، صدر کا انتخاب براہ راست عوام نہیں بلکہ پارلیمان کرتا ہے۔ تمام تر انتظامی امور کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے جو پارلیمانی اکثریت سے منتخب کیا جاتا ہے، وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر مملکت کے نظام کو چلاتا ہے، کابینہ کا چناؤ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے کیا جاتا ہے۔ روایت یہی رہی ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور اسپیکر کا تعلق اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت سے ہوتا ہے۔
حکومتی اتحاد میں شامل نہ ہونے والے اراکین اسمبلی چاہے وہ آزادانہ حیثیت سے الیکشن میں کامیاب ہوئے ہوں یا کسی دوسری سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر آئے ہوں، اپوزیشن کی نشستیں سنبھال لیتے ہیں اور حکومتی جماعت یا اتحاد سے اگر وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے تو اپوزیشن کی نشستوں پر تشریف فرما اراکین اپنے لیے اپوزیشن لیڈر کا چناؤ کرتے ہیں، یوں ایوان میں ‘حزب اقتدار’ اور ‘حزب اختلاف’ کے نام سے دو دھڑے وجود میں آجاتے ہیں۔
ملک کے سیاہ و سفید کی مالک حزب اقتدار ہوتی ہے اس لیے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملکی ترقی کے لیے فیصلہ سازی ، قانون سازی ، ملک کے رہائشیوں کی زندگی آسان بنانے کے لیے انتظام کاری سمیت تمام تر اعمال کی ذمے دار حزب اقتدار ہی ہوتی ہے اور اگر کہیں غفلت، کوتاہی یا مجرمانہ روش اختیار کی جائے تو اس کا الزام بھی حزب اقتدار جماعت پر دھرا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کے عوام کے منتخب وہ نمائندے جو حزب اختلاف کا حصہ بنتے ہیں ، تمام تر ذمے داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں یا ایوان میں ان کا کوئی کردار نہیں رہتا اس لیے ان کا محاسبہ نہیں کیا جانا چاہیئے۔
ممبران اسمبلی حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ، یہ اپنے حلقوں کے لاکھوں افراد کے نمائندہ ہوتے ہیں اور ان پر اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہنے اور تسلسل سے آواز بلند کرتے رہنے کی یکساں ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اور بے جا نہیں ہوگا اگر یوں کہا جائے کہ اپوزیشن پر دہری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے حزب اختلاف کے ہر ہر عمل کو ملک کے عوام کے مفاد کی کھسوٹی پر پرکھنا ہوتا ہے، حکمران جماعت کی لغزشوں، خامیوں ، خرابیوں کی نشاندہی کرنی ہوتی ہے اور کسی دباؤ کی وجہ سے حکمران جماعت اگر دانستہ کوئی ایسا فیصلہ کرے جو ملک کے عوام کی اکثریت کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو تو اس فیصلے کو نافذالعمل بنانے سے روکنے کے لیے پارلیمان کے اندر مناسب انداز میں احتجاج کی جامع حکمت عملی بنانی پڑتی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن جماعتوں کا کردار ملک کے سیاسی کارکنان کے رجحانات کا تعین کرنے کا باعث ہوتا ہے کیونکہ ظلم اور استحصال کے پروردہ نظام میں حکمران تو کبھی بھی عوام کے آئیڈیل نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی ترجمانی کی توقع حزب اختلاف سے لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، لیکن المیہ ہے کہ ایک طرف حزب اقتدار کے ممبران آج تک الزام تراشیوں اور دشنام طرازی سے بعض نہیں آئے تو دوسری طرف اپوزیشن کے چند سنجیدہ افراد کے علاوہ اکثریت نے بھی وہی طرز عمل اختیار کیے رکھا ہے جو حزب اقتدار کے نابالغ سیاسی کارکنان کا ہے۔ عوام پانچ سال کے لیے اپنا حق نمائندگی کسی بھی ممبر اسمبلی کو اس لیے نہیں دیتی کہ وہ اسمبلی کے فلور پر دوسروں کی کرپشن کی داستانیں سنا سنا کر قوم کو بہلاتا رہے یا اپنے لیڈران پر عائد الزامات کی صفائیاں پیش کرنے اور دوسروں کی نجی زندگی کے راز افشاں کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتا رہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے رویے سے پارلیمان کی بے توقیری بڑھانے اور سیاست کو تماشہ بنائے رکھنے کی ٹھانی ہے تو مجموعی طور پر اپوزیشن کا کوئی تعمیری کام بھی دکھنے میں نہیں آرہا، مجھے نہیں سمجھ آتی کہ انتہائی بد انتظامی، مافیاز کے لیے کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کیے جانے، غیر جمہوری قوتوں کا اختیار بڑھانے اور مسلح افواج کے نمائندوں کو سویلین اداروں میں شامل کرنے، لوگوں کا بھوک سے خود کشیاں کرنے اور قوم کی بیٹیوں کا اپنے گھروں کے مردوں کو بازیاب کروانے کے لیے سڑکوں پر آنے اور اگر انھیں مار دیا گیا ہے تو ان کی نعشوں کی بھیک مانگنے، مختلف صنعتی اداروں سے مزدوروں کو جبری بر طرف کرنے، اسکولز کی بندش کی وجہ سے اساتذہ کو تنخواہیں نہ ملنے اور اس جیسے دیگر کئی حساس مسائل کے ہوتے ہوئے ہماری اپوزیشن کا ان کے حل کے لیے کیا کردار ہے، کوئی بتائے گا کہ اپوزیشن کہاں ہے؟؟؟