پنجاب اسمبلی کا احسن اقدام ۔۔تحفظ اسلام بل منظور

پنجاب اسمبلی سے ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے آرہے ہیں اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی خصوصی تحسین کے مستحق ہیں ۔تاریخ بہادر لوگوں کی لکھی جاتی ہے بزدل اورمنافق کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔اس کی مثال سیلاب کے پانی میں بہنے والے تنکے کی مانند ہوتی ہے جو اپنی سمت پر اختیار نہیں رکھتا ۔تحفظ اسلام بل اچھی کاوش ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر عمل درآمد کروایا جائے ۔ہرگزرتے دن کے ساتھ نئے نئے فتنے سر اٹھارہے ہیں ۔اہل بیت وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء کرام سے متعلق نازیبہ پوسٹرز سوشل میڈیا میں گردش کرتے نظرآتے ہیں ۔ایسے قبیح افعال کے مرتکب لوگوں کا تعلق ہماری سرزمین سے بھی ہے ۔ ایسی ناپاک جسارت کرنے والوں کی سرکوبی کرنا ریاست کی پہلی ذمہ داری ہونی چاہیے ۔،ماس میڈیا ،پرنٹ میڈیا اورسوشل میڈیا میں پھیلی اس بے راہ روی پر سزا سے یقینا ایسے جرائم پسند افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اپنے مذموم عزائم کی میڈیا پر تشہیر کرتے ہیں اورتادیبی سزا سے بچ جاتے ہیں ۔

اس عظیم کاوش پرجناب سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ تحفظ بنیاد اسلام تاریخی بل ہے، میں اس کے پاس ہونے پر اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہ بل دین اسلام کی حفاظت اور سربلندی کیلئے انشاء اللہ سنگ میل ثابت ہوگا۔ وفاق اور صوبے اس معاملے میں ہماری تقلید کریں۔ وفاق سمیت تمام صوبوں میں اسی طرح یہ بل منظور کروا کے پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے۔ خصوصی طور پر اس بل کے سیکشن نمبر 3 شق F کو پاکستان پینل کوڈ 1860ء کی شق نمبر 295 سی میں شامل کیا جائے۔وزیراعلی عثمان بزدار نے کہا ہے کہ اس بل سے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوگا ۔وزیرقانون راجہ بشارت نے اس بل کو وزیراعظم پاکستان کے تصورریاست مدینہ کی طرف اہم پیشرفت قرار دیا ہے ۔

اس بل کی بنیادی روح آئین پاکستان میں موجود ہے ۔دستور پاکستان کے مطابق ۱۔اصل حاکم اللہ ربّ العالمین ہے۔۲۔ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہو گا اور کوئی ایسا قانون نہ بنا یا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔۳۔آرٹیکل۲۲۷تمام موجودہ قوانین کو قر آن کریم اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصہ میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔۴۔مملکت جغرافیائی، نسلی یا کسی اور تصور کی بجائے ان اُصول ومقاصد پر مبنی ہو گی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔۵۔سلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر ِاسلام کے اِحیا و اِعلا اورمسلمہ اسلامی فرقوں کے لئے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔اس نکتہ کے ضمن میں دستورآرٹیکل ۳۱ بیان کرتاہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی او راجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اُصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لئے اور اُنہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدام کیے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت ِمطہرہ کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔۶۔باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں۔ یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظ جان و مال و آبرو، آزادی مذہب و مسلک، آزادی عبادت، آزادی اظہارِ رائے، آزادی نقل و حرکت، آزادی اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔۷۔دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔آئین پاکستان تحفظ اسلام کا آمین ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم آئین پاکستان کی حقیقی روح کو ارض پاک میں نافذ کریں ۔تحفظ اسلام بل دراصل آئین پاکستان ہی کی روح ہے ۔

آئین پاکستان کی اس روح سے متعلق جناب قیوم نظامی صاحب جناب جسٹس (ر)فضل کریم صاحب (عدالتی تاریخ کے معروف سکالر) کی کتاب کاحوالہ دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ موصوف نے اپنی کتاب Judicial Review of Public Actionsمیں اسلامی طرز زندگی کے بارے میں ایک باب شامل کیا ہے جو آئین پاکستان کے مختلف آرٹیکلز، عدالتی فیصلوں اور عالمی آئینی ماہرین کے مستند حوالوں پر مشتمل ہے۔ جسٹس(ر) فضل کریم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آئین کے باب نمبر 2میں حکمت عملی کے بنیادی اُصول بیان کیے گئے ہیں جس کا آرٹیکل نمبر 29تقاضا کرتا ہے کہ ریاست کا ہر شعبہ اور مجاز اتھارٹی ان اُصولوں پر عمل کرے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 2، نمبر 3، نمبر 31، نمبر 37 اور نمبر 38کو ملا کر پڑھا جائے تو ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اسلامی طرز زندگی کو فروغ دے اور اسلام کے بنیادی اُصولوں کے مطابق سماجی انصاف کو یقینی بنائے اور سماجی برائیوں کا خاتمہ کرے۔ جہالت ختم کی جائے فوری اور سستا انصاف فراہم کیا جائے۔ بچوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ استحصال کی ہر صورت کو ختم کرکے فلاحی ریاست تشکیل دی جائے جو ہر شہری کے معیار زندگی میں اضافہ کرے۔

آئین پاکستان تحفظ اسلام کا ضامن ہے ۔مغرب کا سوشل ویلفیئر سسٹم عوام کی مالی اعانت کو چیریٹی جبکہ اسلام کا ویلفیئر سسٹم مالی اعانت کو حق قرار دیتا ہے ۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امیر کے مال میں غریب کا حق ہے ۔آئین پاکستان کی روح واضح کرتی ہے کہ پاکستان کا نظام کتاب وسنت کی مطابق ہونا چاہیے ۔پاکستان زمین پر دین کے نام پر معرض وجود میں آنے والی دوسری ریاست ہے ۔یقینا اس ریاست میں دین اسلام کے تحفظ کے لیے ایک نئی قرارداد خوش آئند عمل ہے۔

قائداعظم محمدعلی جناح ،احیاء اسلام ،فروغ اسلام اورتحفظ اسلام کے آمین تھے ۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 8 مارچ 1944ء میں فرمایا مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے نہ وطن نہ نسل ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔شاہی دربار سبی بلوچستان 14 فروری 1947ء میں فرمایا میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کانفرنس منعقدہ 19 مارچ 1944ء سے خطاب میں فرمایاہماری بنیاد کی چٹان اور ہماری کشتی کا لنگر اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ذات پات کیا شیعہ سنی کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں بحیثیت ایک متحد قوم ہی کے آگے بڑھنا ہے۔ صرف ایک رہ کر ہی ہم پاکستان کو قائم رکھ سکیں گے۔ ہمارے لیے صرف اسلام ہی کافی و شافی ہے۔

قائداعظم کے افکار وخیالات ،آئین پاکستان تحفظ اسلام کی عمدہ اسناد ہیں ،پنجاب اسمبلی نے تحفظ اسلام بل پاس کرکے وطن عزیز کی اساسوں اورمحبان پاکستان کے دل موہ لیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصرہو۔

23 تبصرے

جواب چھوڑ دیں