منگل کے دن پاکستان کے دارالحکومت سے غیر جمہوری قوتوں پر کھل کر تنقید کرنے والے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو لاپتہ کیئے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر گویا ایک ہنگامہ برپا ہوا اور ملک کے سیاسی و سماجی کارکنان اور صحافتی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے وابستگان نے یک زبان ہو کر مطیع اللہ جان کی بازیابی کے لیے مؤثر آواز بلند کی، اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکام کو بدھ کے دن مطیع اللہ جان کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر وہ مطیع اللہ کو پیش کرنے میں ناکام رہے تو سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی ذاتی حیثیت میں عدالت حاضر ہوں۔
عدالتی حکم نامے کا دباؤ کہیں ، سوشل میڈیا پر بلند ہونے والے ہنگامے کے نتائج یا اغوا کاروں کی رحم دلی کہ بفضل خدا اغوا کیئے جانے کے بعد مزید کوئی بری خبر سننے سے پہلے ہی اغوا کے 12 گھنٹوں بعد مطیع اللہ جان کو رہا کردیا گیا۔
مطیع اللہ جان دنیائے صحافت کا ایک روشن کردار ہے جو اپنے طور پر کھل کر حقائق بیان کرتا ہے اور ان پر بے لاگ تبصرے بھی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں ہی ان پر حملہ کیا گیا اور حال میں جسٹس عیسیٰ فائز کیس کے حوالے سے ان کی ٹوئٹس کو جواز بنا کر ان کے خلاف توہین عدالت کی سماعت بھی کی جارہی ہے۔
مطیع اللہ جان کو اغوا کیئے جانے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے پریس کانفرنس سے خطاب میں مطیع اللہ جان کے اغوا کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ان کے پاس اس واقعے کے حوالے سے تفصیلات موجود نہیں ہیں,لیکن یہ تو طے ہے کہ ان کو اغوا کیا گیا ہے۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مطیع اللہ جان کو فوری بازیاب کروانا اور ہر فرد کی جان کو محفوظ بنانا ریاست کی ذمے داری ہے۔
مطیع اللہ جان کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کو اسکول سے لینے کے لیے گئے۔ عینی شاہدین اور کیمرہ ریکارڈ کے مطابق اغوا کار پولیس کی وردی میں ملبوس تھے۔
مطیع اللہ جان کے لاپتہ کیئے جانے کے فوراً بعد ان کے بھائی شاہد اکبر عباسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی بازیابی کے لئے پٹیشن دائر کی ہے جس میں ریاستِ پاکستان، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد پولیس اور آبپارہ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا تھا۔
ملک کے دارالحکومت میں کسی صحافی کے ساتھ پیش آنے والا یہ سانحہ کوئی انوکھا نہیں ، اس سے پہلے بھی صحافیوں کو ہراساں کرنے، اپنا وطیرہ بدلنے اور انھیں دباؤ میں لانے کے لیئے ایسے گھناؤنے قدم اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
مطیع اللہ جان کو لاپتہ کیے جانے والے افراد کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اگر ماضی میں ہونے والے اس نوعیت کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو انگلی بے ساختہ ریاستی پالیسی سازوں کی طرف اٹھتی ہے اور دل میں اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ‘ملکی سلامتی’ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں سے ایک قدم ہے۔ اللہ کرے کہ اندیشہ جھوٹ ثابت ہو کہ اندیشوں کا غلط ثابت ہونا ہی اچھا ہوتا ہے۔
بہر حال ہمارے ہاں لوگوں کو جبری لاپتہ کیئے جانے کی رسم نہ تو نئی ہے اور نہ ہی کسی ایک علاقے تک محدود، ملک بھر میں ریاستی بیانیوں کے خلاف بولنے والوں کی زبانیں بند کرنے اور مزید لوگوں کو ان کا ہمنوا بننے سے روکنے کے لیے یہ منفی ہتھکنڈہ اس قدر تسلسل سے دہرایا جانے لگا ہے کہ اب تو ملک بھر میں سے آواز اٹھنے لگی ہے کہ ‘یہ جو نامعلوم ہیں ، یہ سب کو معلوم ہیں’ سب کو معلوم ہونے کے باوجود ہماری سرکردہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی انتہا درجے کی اس پامالی پر بھی کبھی کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا نہ ہی کسی نے انھیں ‘شٹ اپ کال’ دی۔
سوشل میڈیا پر مشاہدہ رہا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی مذمت اور اس کی بازیابی کے مطالبے پر ‘حب الوطنی’ کے خمار میں مبتلا کچھ افراد لٹھ لے کر آپ پر چڑھ دوڑنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں اور آپ کی بات سے پہلے مذکورہ صحافی کو غدار اور ملک دشمن قرار دیتے ہیں اور اگر پھر بھی آپ اغوا کی مذمت اور بازیابی کے مطالبے پر قائم رہتے ہیں تو ان کی آپ بھی غداروں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔
عرض بس اتنی سی ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کے رہائشی ہیں جس میں ہر فرد کو اپنے طور پر جینے ، بولنے اور حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے کی آزادی ہے۔ یہ ملک ایک جامع آئین کا حامل ہے۔ تعزیرات کے مطابق اس ملک میں ہر جرم کے لیے قرار واقعی سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے۔ ملک میں ضلع کی سطح سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک عدلیہ کا ایک جال بچھا ہے جس کا کام ہی تنازعات اور جرائم کی صورت میں فریقین کا مؤقف سننے اور دستیاب شواہد کا مشاہدہ کرنے کے بعد فرد جرم عائد کرنا اور جرم کے مطابق سزا دینا ہے۔ ایسے میں اگر کسی کے وسیع تر مفاد میں کچھ نادیدہ ہاتھ اپنے تیئں خود ہی پولیسنگ بھی کریں گے، خود ہی مدعی بھی بنیں گے اور من چاہے انداز میں خود ہی منصفی کے فرائض بھی انجام دیں گے تو سوائے انتشار اور نفرتوں کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عام سیاسی کارکن ہو یا کوئی سرکردہ فرد اس کے لاپتہ کیئے جانے کے عمل کے خلاف آواز بلند کی جائے اور مطالبہ کیا جائے کہ اگر کسی فرد سے کسی جرم کا ارتکاب بھی ہوا ہو تو اس کا اوپن ٹرائل کرکے اسے قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے تا کہ شکوک و شبہات جنم نہ لیں اور ملکی اداروں کے خلاف پھیلتی نفرتوں میں کمی واقع ہو۔
آخر میں مطیع اللہ کے اغوا پر میرا ایک شعر :
شہر پر کیا کوئی آسیب مسلط ہے مرے
جو کہ ہر بولنے والے کو اٹھا لیتا ہے