برصغیر پاک و ہند میں عموماً گھر کے کام کاج کی ذمہ داری خواتین کی ہوتی ہے،بیٹوں کی شادیاں اکثر اسی لیے کی جاتی ہیں کہ گھر کو سنبھالنے والی کوئی نہیں۔۔ شادی کے چند دن بعد دلہن کے ہاتھ سے کھیر پکواکر اسے زندگی بھر کھانا پکانے کا لائسنس جاری کردیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی گھر کے دیگرامور کی ذمہ دار ی بھی اس پر ہوتی ہے۔مشترکہ خاندانی نظام میں تو بہوئیں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ساس سسر، دیورکا بھی خیال رکھتی ہیں۔ اب ایسی صورتحال میں اگر کوئی ’’جی دار‘‘ شوہر آگے بڑھ کر اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہے تو اُسے طعنے، تشنے، لعنت ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی اماں ہی صدائے اعتراض بلند کرتی ہیں کہ شادی سے پہلے تو اٹھ کر پانی بھی نہ پیتا تھا اب بیگم کو پیاز کاٹ کر دے رہا ہے۔ دوستوں تک یہ بات پہنچ جائے تو وہ جورو کا غلام کا ٹائٹل دے دیتے ہیں۔
آپ مانیں یا نہ مانیں ہمارے معاشرے میں انہی ’پارلیمانی رویوں‘ کی وجہ سے اکثر شوہر ظالم اور سنگدل بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن مصر میں تو ایک شوہر نے تاریخ ہی پلٹ کر رکھ دی ہے، قاہرہ کے رہائشی31 سالہ محمود ایس نے ثمر نامی خاتون سے شادی کے اگلے دن سے ہی گھر کے کام کاج شروع کردیے جس پر ثمر پر تو حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آخر نئی نویلی دلہن بھی چند ہفتے دعوتوں کے مزے اڑانے کے بعد ہی گھر کے کاموں میں ہاتھ لگاتی ہے لیکن شادی کے اگلے دن سے ہی شوہر کی جانب سے جھاڑو پوچھا شروع کردینا بڑے ’’دکھ‘‘ کی بات ہے۔ ثمر نے سوچا کہ محمود صاحب اچھا شوہر بننے کی اداکاری کررہے ہیں، دو چار دن میں ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ محمود ایس صاحب صبح اٹھتے ہی ناشتہ بناتے، گھر کی صفائی کرتے اور کام پر چلے جاتے۔ گھر سے نکلتے ہوئے بیگم کو گڈ بائے کہنے کے بجائےتنبیہ کرتے کہ خبردار جو گھر کے کسی کام کو بھی ہاتھ لگایا، میں شام میں آکر رات کا کھانا بنادوں گا۔ ثمر دن بھر کسی کام کو ہاتھ نہ لگاتی،شوہر شام کو آتے ہی کام میں جت جاتے، رات کو ڈنر کرنے کے بعد برتن دھوتے اور بستر پر آکر لمبی تان کر سوجاتے۔۔۔ شوہر صاحب کے ہوش ٹھکانے لگنے کے انتظار میں بیٹھی ثمر کے صبر کا پیمانہ ایک دن لبریز ہوگیا اور اُس نے محمود ایس صاحب کے سامنے صدائے احتجاج بلند کردی۔ لیکن محمود صاحب نے بیگم کے احتجاج کومسترد کرتے ہوئے فرمان جاری کیا کہ اس گھر میں اُن کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔ آخر کار ثمر نے پندرہ دن اپنے’’بیوی نما‘‘ شوہر کے ساتھ گزارنے کے بعد قاہرہ کے ایک فیملی کورٹ میں خلع کے لیے پٹیشن دائر کردی ہے۔ ثمر کہتی ہیں کہ وہ’’ شادی کے بعد اپنے گھر میں مہمان کی طرح رہتی رہیں، شوہر نے انہیں ایک فالتو چیز کی طرح رکھا ہوا تھا، وہ ایسے بیویوں کی خصلت والے شوہر کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں‘‘۔
یہ خبر پڑھنے کے بعد تو ہمیں ثمر کی قسمت پر رشک آیا ،ایسا ہیرہ شوہر ملا ۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ عزت کسی کسی کو راس آتی ہے۔
Your article has answered the question I was wondering about! I would like to write a thesis on this subject, but I would like you to give your opinion once 😀 baccaratsite