ٹرن ٹرن ٹرن۔۔۔
موبائل فون کی گھنٹی پر انسپکٹر اشہد میر کی آنکھ کھلی ایک نظر کھڑکی سے باہر برستی بارش پر ڈالی اور بٹن دباکرہیلو کہا!
”ہیلو سر فورا ًآپ یہاں آجائیں ایک لاش ملی ہے” حوالدار کرمداد کی خوف سے بھری آواز موبائل فون کے اسپیکر پر ابھری
”کیا؟ یار رات کے تین بج رہے ہیں تم دیکھ لو” انسپکٹر اشہد میر جھنجھلا کر بولے
”نہیں سر پلیز آپ آ جائیں یہاں معاملہ کچھ گڑبڑ ہے” کرم داد بولا
” کہاں آنا ہے” انسپکٹر اشہد میر نے سائیڈ ٹیبل کی دراز میں سے اپنی گاڑی کی چابی نکالتے ہوئے پوچھا!
”سریہ معمار کا علاقہ ہے کافی سنسان جگہ ہے یہاں بہت کم مکان بنے ہوئے ہیں” کرم داد بولا
”او کے آتا ہوں” کہہ کر انسپکٹر اشہد میر نے کال کاٹ دی اور اپنی گاڑی میں روانہ ہو گیا۔۔۔
ٹھیک تین بج کر پینتالیس منٹ پر وہ وہاں پہنچ گیا تھا۔
علاقہ واقعی آبادی سے دور تھا اور سنسان بھی چند ایک مکانات بنے ہوئے تھے جس میں سے کچھ ٹوٹے ہوئے تھے کچھ ادھورے تھے۔
”لاش پہلے کس نے دیکھی؟” انسپکٹر اشہد میر نے حولدار سے پوچھا۔
”سر اس چوکیدار نے دیکھی یہ روزانہ یہاں سے گزرتا ہے آبادی میں جانے کے لیے”
حولدار ساتھ کھڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے بولا جو کہ کافی ڈرا ہوا لگ رہا تھا۔
”چلو اندر چل کر دیکھتے ہیں” انسپکٹر اشہد میر نے دونوں کی طرف دیکھ کر کہا!
وہ مکان کافی پرانا لگ رہا تھا اور عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی گھپ اندھیرا تھا اور ایک پراسرار سی خاموشی تھی جیسے یہاں کچھ دیر پہلے ایک دعوت ختم ہوئی ہو اور اب سکون ہو۔
انسپکٹر اشہد میر آگے بڑھے:
اچانک چوکیدار بولا …
”صاحب اندر مت جائیں یہاں ایک سال سے ایسا ہو رہا ہے میں یہاں سے روز گزرتا ہوں روزانہ عجیب وغریب آوازیں آتی ہیں جیسے کوئی رو رہا ہو اور کبھی کسی پائل کی آواز بھی آتی ہے، آج بھی جب میں یہاں سے گزرا تو مجھے ایک چیخ سنائی دی تو میں اندر دیکھنے کے لیے بھاگا کہ شاید کسی کو مدد کی ضرورت ہے جب میں اندر گیا تو میں نے ایک کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی لاش دیکھی”
حوالداریہ سب سن کرہی ڈر گیا۔
انسپکٹر اشہد میر بولے ــ”ٹھیک ہے تم دونوں یہی رہومیں خود دیکھ کے آتا ہوں”
انسپکٹر اشہد میراندر گئے، اندر کا سماں ہی الگ تھا سب جگہ خوبصورت برقی روشنی جگمگا رہی تھی ہلکی سی پیانو کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی تازہ گلاب کے پھولوں کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
چھن چھن چھن!
پائل کی آواز پہ انسپکٹر اشہد میر نے جھٹ سے پلٹ کر دیکھا تو سامنے ایک خوش باش لال رنگ کی ساڑھی پہنے لڑکی کھڑی تھی جس کے ہاتھ میں کیک تھا۔
”دیکھو آج تمہاری سالگرہ ہے کیک میں نے خود بنایا ہے”
وہ کسی نادیدہ شخص سے مخاطب ہو کر بولی، اس کی نظروں کے تعاقب میں انسپکٹر اشہد میر نے دیکھا تووہاں ایک لاش لٹکی ہوئی تھی پنکھے سے اور اندھیرا بھی تھا انسپکٹرنے پلٹ کر واپس اس لڑکی کو دیکھنا چاہا تو وہاں کوئی نہیں تھا واپس لاش کی طرف دیکھنا چاہا تو وہاں ڈھانچہ لٹکا ہوا تھا کمرا کھنڈر بنا ہوا تھا جیسا باہر کامنظر تھا ویسا ہی ،سامنے ٹیبل پر پھول مرجھائے ہوئے، آدھی موم بتی، کچھ کتابیں، کرسی گری ہوئی اور ایک عدد ٹیبل تھا اوپر لٹکتا فانوس جو جالوں سے بھرا ہوا تھا ، ایک نظر کمرے پر ڈال کے جیسے ہی اس نے پنکھے کی طرف دیکھا تو وہاں پر بھی کچھ نہیں تھا انسپکٹر اشہد میر کا سر چکرانے لگا وہ باہر آگئے۔۔۔
حوالدار اور چوکیدار آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہے تھے…
”میرا سر بھاری ہو رہا ہے کرم داد” انسپکٹر اشہد میر بولے
” صاحب جی میں نے سنا ہے یہاں کوئی ہندو فیملی رہتی تھی میاں بیوی، دونوں میں بہت محبت تھی لیکن اچانک شوہر کو کوئی بیماری ہو گئی تھی عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگا تھا راتوں کو اٹھ اٹھ کر چھت پر جا کر بیٹھ جاتا تھا،صرف مٹی کھاتا تھا،کئی دن بھوکا رہتا تھا بہت علاج کروایا پر آرام نہ آیا کئی پنڈت بلکہ مولویوں تک نے کوششیں کی لیکن سب آکر یہی کہتے کہ یہ گھر آسیبی ہے اور پھر بھاگ جاتے”
چوکیدار کانپتے ہوئے بولا…
”اور پچھلے سال اچانک میاں نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی تھی اس دن اس کی سالگرہ تھی بہت اچھا اہتمام کیا تھا اس کی بیوی نے، لاش کو لٹکتا دیکھ کر بیوی پاگل ہوگئی اور اس نے گھر میں ہی زہر کھا کر خودکشی کرلی تھی آج اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے آج کے دن ہی اس کی سالگرہ تھی آج چاند کی چودہ تاریخ ہے ہندوؤں کے حساب سے پرُنما کی رات ہے”
” یعنی لاش کی پہلی سالگرہ؟” حوالدار شدید حیرانی سے بولا…
انسپکٹر اشہد میر ابھی سوچ میں پڑے تھے کہ اچانک وہاں سب لائٹس بند ہوگئی اور پائل کی آواز آنے لگی تینوں نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی…!!