مسلمانوں کی طرف سے کافی عرصے سے یہ کوششیں کی جارہی تھیں کہ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جائے۔ مسلمانوں کی جماعت کا خیال تھا کہ 1934 میں جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے اس مسجد کو میوزیم میں بد ل دیا تھا۔ مصطفی کمال اتاترک کا مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہ کو تفریح گاہ میں بدل دینا ترک قوم کی روایات کے ساتھ سنگین مذاق تھا۔ لہذا ا س عمارت کو حالت میوزیم میں بدل دینا مسلمانوں کے دلوں پر ایک ناقابل برداشت بھاری بوجھ تھا۔ اور اب تقریباََ 86 برس بعدترک اسلام پسندوں نے اس قدیم عثمانی وراثت کو مسجد کا درجہ دلوا کر ایک اور بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق 24 جولائی کو صدر اردوان خود اس افتتاحی اجتماع میں شرکت کریں گے اور نماز جمعہ کے بعد عوام سے خطاب بھی کریں گے۔
جہاں تک استنبول کے عوام کا تعلق ہے تو وہ اپنے محبوب لیڈر کے اس فیصلے پر خوش ہیں۔ یاد رہے !یہ وہی استنبول ہے جہاں سے اردوان نے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کیا تھا اور اسی شہر کے ایک عشرے تک وہ میئر بھی رہے تھے ۔استنبول کے عوام کے دلوں میں رہنے والے رجب طیب اردوان نے اپنی عوام کو کبھی مایوس نہیں کیا اور اب وہ ترکی سمیت پوری اسلامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیںاور ہر مسلمان کے دلوں میں ان کی حیثیت اسلامی ہیرو سے کہیں زیادہ موجود ہوگی۔ خود اردوان نے استنبول سے ہی ہر طاغوتی قوت کا ڈٹ کر سامنا کیااور استنبول کے عوام نے بھی انہیں اکیلانہیں چھوڑا ۔ صدر اردوان کے اس تاریخی عمارت کو اسلام پسندوں کی تحویل میں دینے کے فیصلہ کوترک عوام کی عظمت رفتہ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
جمعے کے روز ترکی کی اعلیٰ عدالت’’ کونسل آف اسٹیٹ ‘‘نے یونیسکو کے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل مشہورترک عمارت آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم نامہ جاری کیا، جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے عدالتی حکم نامے کی توثیق کرتے ہوئے اس پر دستخط کیے اور 24 جولائی بروز جمعہ ہی کے دن سے مسجدکو مسلمان نمازیوں کے لیے کھلولنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عمارت کا انتظام اب ترکی کے مذہبی امور کے محکمے کو سونپ دیا گیا ہے، جس کے بعد اس قدیمی عمارت کاکنٹرول بطور مسجد ترک محکمہ مذہبی امور سنبھالے گا۔یہ کیس جو اردوان حکومت کی زیر نگرانی گزشتہ سال استنبول کے مقامی الیکشن کے بعد دائر کیا گیا تھا،ایک سال سے زیر سماعت تھا اور یہ کیس صدر اردوان کی ذاتی دلچسپی کا حامل سمجھا جا رہا تھا۔ اس فیصلے پر عالمی میڈیا اور ادارہ یونیسکو سمیت استنبول کے مختلف مکاتب فکر نے شدید مخالفت بھی کی تھی کہ حکومت کوحق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک عالمی ورثے کو اپنی تحویل میں لے۔ یونیسکو نے ’’کونسل آف اسٹیٹ ‘‘ کے اس فیصلے پراحتجاجاََکہا ہے کہ ترکی عالمی ادارے کی پالیسیوں کے خلاف اقدام کرنا بند کرے اور آیاصوفیہ کو میوزیم کے درجے میں بحال کرے۔
کچھ حلقے اس بات کو بنیاد بنا کر یہ زہر پھلانے میں مصروف ہیں کہ صدر اردوان نے اس فیصلے کو مذہب سے زیادہ سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی کو گزشتہ سال مارچ میں ہونے والے مقامی انتخابات میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔بائیں بازو کے ان مخالفین کا نقطہ اعتراض یہ بھی ہے کہ بیس برس سے اردوان ترکی میں حکومت کررہے ہیں تب تو ان کو مسیحوں کے تاریخی چرچ کو مسجد بنانے کا خیال نہیں آیا تو اب کیوں ان کو اسلام کا درد جاگ اٹھا ہے؟ معترضین کو یہ نظر نہیں آتا کہ ترکی تقریباََ ایک صدی بعد اپنی اصل حالت کی طرف لوٹنے کی کوشش کررہا ہے۔اور اس میں بہت حدتک صدر اردوان اور ان کی ٹیم کا عمل دخل ہے۔ کمال اتاترک نے سیکولرازم کی ترویج کی اور جدید ترکی کی اصطلاح نے ملک کو ہر لحاظ سے پیچھے دھکیل دیا۔مذہبی حلقوں اور اسلام پسندوں کو ایک ایک کرکے ختم کیا گیا ۔ ملک میں شعائر اسلام پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں ۔جس کے بعد بظاہر لگتا تھا کہ ترکی میں یورپی اثر ورسوخ پوری طرح حاوی ہے اور ترک عوام کی ایک پیڑی اسلام کی کونپلیں دوبارہ نکلنے کی آس لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
صدر اردوان نے نچلی سطح سے بقاء اسلام کا کام شروع کیا اور اس دوران ان کی حکومت نے بڑے کٹھن حالات و مشکلات کو جھیل کر اسلام اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔ چار سال قبل 15 جولائی کے دن صدراردوان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت نے سر اٹھایا تو عالمی قوتوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کردیے۔ اسرائیل امریکہ کے گٹھ جوڑ اور فلسطینی زمینوں پر ناجائز قبضے پر اردوان نے بلاخوف ہر عالمی پلیٹ فارم پر آواز بلند کی۔
اسی طرح نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں بے دردی سے 51 مسلمانوں کو شہید کرنے کے واقعے کے بعد اسلامی ممالک میں سے سب سے مضبوط احتجاج ترکی نے کیاتھا۔ مسئلہ کشمیر اور بھارت کی درندگی پر بھی رجب طیب اردوان نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔اب ایسا اسلام پسندلیڈر کسیے کفار کی آنکھو ں کا تارہ بن سکتا ہے۔ ترکی اسلام پسندوں کی وہ جگہ ہے جہاں سے خلافت عثمانیہ کی پوری دنیا پر کی گئی اسلامی حکومت کی حسین یادیں وابسطہ ہیں۔ اور آیا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنا اردوان کا ترک قوم کو ایک تحفہ ہے جس کا انہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا۔