سڑکوں پہ ناچتی ہیں کنیزیں بتول کی
اور تالیاں بجاتی ہے امت رسول کی
یہ شعر ہمارے مسلم معاشرے میں اسلامی قدروں کی پامال ہوتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کسی دل گرفتہ شاعر نے کہی تھی ۔مگرآج کل کے ٹی وی ڈراموں پر جو کچھ پیش کیا جارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے محسو س ہوتا ہے کہ ان ڈراموں کے پروڈیوسر ہمارے یہاں کچھ ایسا ہی ماحول پیدا کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ کوششوں میں مصروف ہیں۔
پاکستانی عوام کی سستی تفریح کی بات کی جائے تو پاکستانی عوام ٹیلی ویژن کے ذریعے سستی تفریح حاصل کرلیتی ہے مگر جب ٹیلی ویژن پر عوام کو تفریح کے نام پر پاکستانی معاشرے کا غلط کلچر پیش کیا جانے لگے تو یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے آج سے دس بارہ سال قبل جب پرائیوٹ چینلز برساتی کھمبیوں کی طرح نہیں اگلے تھے تو پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے تفریح کے ساتھ ساتھ مفید معلومات بھی فراہم کرتے تھے اورسنجیدہ موضوعات پر معاشرے کے مسائل اور ان کے حل پر بھی ڈرامے بنتے نظر آتے تھے۔پی ٹی وی کے ڈراموں کے لیے لوگ پورا پورا ہفتہ انتظار کرتے تھے کیونکہ واقعی وہ ڈرامے اپنے موضوعات کے حساب سے بہترین بلکہ ناظرین کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ضرور دیتے تھے مگر شائد زمانہ کی ترقی کے ساتھ ہی ڈراموں نے بھی اپنا انداز بدل ڈالا اور ترقی کے نام پر وہ کچھ دکھایا جانے لگا کہ اللہ کی پناہ ۔ اب جو ڈرامے بن رہے ہیں اسے ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ بھی نہیں ۔آج کل کے پرائیوٹ ٹی وی چینل کے ڈراموں پر نظر دوڑائیں تومحبت تو محبت بلکہ چند ناجائز رشتوں پر مبنی ڈرامے بھی دکھائے جارہے ہیں کبھی طلاق کے بعد بھی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ رہتی نظر آتی ہے تو کبھی محرم رشتوں کے دوران محبت اور پھر بات شادی تک جا پہنچتی ہے کبھی بھاگ کر شادی کرنے کی بات ہوتی ہے تو کبھی شادی کے بعد بھی بیوی کی کسی دوسرے مرد سے محبت یا مرد کے عورت سے تعلقات کو ناصرف دکھایا جاتا ہے بلکہ اس کو معاشرے میں اچھا بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ طلاق لینے کے عمل کو عورت کی آزادی کے نام پر بہت ہی معمولی دکھایا جاتا ہے پھر ان ڈراموں میں ثقافت کے نام پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ قطعی طور پر پاکستانی معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتے ۔پاکستانی چینلز ڈرامے کی ریٹنگ کے چکر میں ہماری معاشرتی قدروں کو پامال کر رہے ہیں اورالمیہ یہ ہے کہ اس سب کے باجود ہماری حکومت اور پیمرا مٹی کی مورت بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈرامے ایسے موضوعات پر بنائے جائیں جس سے کسی میں احساس محرومی پیدا نہ ہو اور جو کسی ایک طبقہ کی نمائندگی نہ کرے بلکہ پورے پاکستانی کلچر کی ترجمان ہو اور پاکستان سے متعلق بہترین تاثر جائے۔ جو دِکھتا ہے وہ بکتا ہے کی پالیسی کو بدلنا ہوگا اور شعوری طور پر ایسے ڈرامے بنانے ہونگے جو موضوع کے لحاظ سے منفرد اور حقیقی مسائل پر مبنی ہوں۔