غالباً یہ تین چار سال قبل کی بات ہے جب صاحب موصوف روزنامہ سیاست مظفرآباد میں باقاعدگی کے ساتھ افتخار مغل مرحوم کے نام کچھ خطوط ’’نامے بہ نام افتخار‘‘ کے عنوان سے چھپتے تھے۔ان خطوط کو مرتب کرنے والے نوجوان قلم کار فرہاد احمد فگارؔ تھے۔ راقم ان خطوط اور فگارؔ صاحب کے دیگر مضامین کو باقاعدگی اور شوق سے پڑھتا تھا اور یہی مضمون جناب فگارؔ کے ساتھ تعارف (اب ایک گہرے برادرانہ تعلق ) کا باعث بنے۔یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ موصوف کی طرح راقم بھی آزاد کشمیر میں غزل اور نظم کے عظیم شاعر جناب افتخارؔ مغل مرحوم کے مداحوں میں شامل تھا اور ان کی کتاب ’’انکشاف‘‘ کے اکثر شعر مجھے ازبر تھے۔ میری آج کی تحریر کا مقصد برادرم فرہاد احمد فگارؔ کی نومطبوعہ کتاب ’’احمد عطا اللہ کی غزل گوئی‘‘ پر اپنے تاثرات قلم بند کرنا ہے۔جو میرا فرض اور صاحب کتاب کا حق ہے۔میری خوش بختی کہ جناب فگارؔ ۳۰/ مئی /۲۰۲۰ء کو راقم الحروف کے غریب خانے(سراڑ) تشریف لائے اور اپنے دست خط کے ساتھ اپنی تصنیف بھی عنایت فرمائی جو میرے لیے ایک اعزاز ہے۔کتاب کا سرورق جناب احمد عطا اللہ کی خوب صورت تصویر اور بے مثال شعر:
جب غزل پھر رہی تھی سر کھولے
یہ ہمی تھے جنھوں نے در کھولے
سے مزین ہے۔اپنی اس پہلی تحقیقی کاوش کو اپنے والدین کے نام منسوب کر کے مصنف نے جہاں والدین سے محبت کا ثبوت دیا ہے وہیں ہمارے لیے یہ سبق بھی چھوڑا ہے کہ والدین ہی وہ ہستیاں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا وجود ہے۔کتاب کے شروع میں جناب سید معراج جامی (کراچی) کا تبصرہ صاحبِ کتاب کی علم پروری اور تحقیقی کاوشوں کے اعتراف کے علاوہ کتاب کے قبولِ خاص وعام کی نوید ہے۔جناب جامیؔ نے اپنے مضمون میںجہاں کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا وہیں احمد عطاؔ اللہ کی شاعری پر بھی جامع تبصرہ کیا ہے جو کتاب ، صاحب کتاب اور جناب احمد عطااللہ کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے۔’’مستند حوالہ‘‘ کے عنوان سے پلندری، آزاد کشمیر سے جناب ڈاکٹر ماجد ؔمحمود نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جس میں جناب فگارؔ کی غیر معمولی تحقیقی صلاحیتوں کا اعتراف کھلے الفاظ میں کیا گیا ہے۔پروفیسر حبیب ؔگوہر، کہوٹہ سے جہاں ’’نقش اولیں‘‘کے عنوان کے ساتھ مصنف کی علمی و تحقیقی کاوشوں کے معترف نظر آتے ہیں وہیں’’کارِ فرہاد اور کوہِ تحقیق‘‘ کا عنوان لیے نیلم ،آزاد کشمیر سے پروفیسر احمد وقارؔ بھی کارِ فرہاد سے متاثر ہیں۔حرفِ سپاس کے طور پر مصنف نے اپنی آرا میں جناب احمد عطا ؔاللہ کے مختصر شخصی جائزے کے علاوہ ان کی شاعرانہ زندگی پر مختصر نظر ڈالتے ہوئے اپنے معاونین کا شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اس مشکل تحقیقی کام میں ان کی حوصلہ افزائی اور بھرپور معاونت کی۔کتاب کے بابِ اول میں احمد عطا اللہ کے خاندانی پس منظر اور پیدائش سے لے کر آپ کی تعلیم اور مشاغل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ پڑھنے کے دوران میں قاری کسی موقع پر بوریت کا شکار نہ ہو۔اسی باب میں احمد عطا اللہ کی ادھوری تعلیم، آپ کی اداکاری، مزاح نگاری، تعلیم کی تکمیل اور ملازمت کے حوالہ سے جو دل چسپ انکشافات کیے گئے ہیں وہ قاری کو اپنی طرف راغب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ کتاب کی خاص بات اس کے وہ حاشیہ بردار حوالہ جات ہیں جو ہر باب کے آخر میںدیے گئے ہیں جس سے مصنف کی تحقیقی صلاحیتوں سے پردہ اُٹھتا ہے۔مصنف نے احمد عطا اللہ کے حوالہ سے مختلف ادبی و علمی شخصیات کے انٹرویوز کو بھی اس باب کا حصہ بنایا ہے جس سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔کتاب کے بابِ دوم میں’’ آزاد کشمیر میں اردو غزل کے آغاز و ارتقا‘‘ کے عنوان سے مصنف نے اہم تحقیقی نکات سے پردہ اٹھاتے ہوئے کشمیر میں اردو غزل کے آغاز سے لے کر موجودہ شعرا کی تفصیلات مستند حوالہ جات کے ساتھ درج کی ہیں ۔ جو تاریخ اردو کے طلبہ کے لیے انتہائی قیمتی و نادر مواد ہے۔ریاست جموں و کشمیر میں ادبی خدمات انجام دینے والے رسائل و جرائد کے ذکر کے ساتھ ساتھ ریاست کے ایسے شعرا جن کے شعروں کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے کا ذکر مصنف نے خصوصیت کے ساتھ کیا ہے ، جن میں ڈاکٹر صابر آفاقی، مشتاق شاد، ڈاکٹر افتخار مغل ، الطاف قریشی، مخلص وجدانی، جاوید الحسن جاوید، ڈاکٹر سیدہ آمنہ بہار، ڈاکٹر کاشف رفیق، سید شہباز گردیزی ، واحد اعجاز میر، ذکریا شاذ، ایاز عباسی، ڈاکٹر ماجد محمود ماجد، جاوید سحراور آصف اسحاق شامل ہیں۔ مصنف نے الگ الگ ٹائٹل کے ساتھ مذکورہ شعراکا تعارف ان کے شعروں کے ساتھ کروایا ہے جو ان کی تحقیقی تکنیک کا مظہر ہے۔باب سوم میں احمد عطا اللہ کے پہلے شعری مجموعہ ’’بھول جانا کسی کے بس میں نہیں‘‘ کے فنی و فکری جائزے پر مشتمل ہے۔ جس میں احمد عطا اللہ کی شاعری کو مختلف زاویوں سے پرکھا گیا ہے۔ اس باب کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر عنوان کو شاعر کے شعر کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر احمد عطااللہ کی شاعری میں موجود بے ساختہ پن کو غلام محمد قاصر کے اس شعر سے یوں واضح کیا گیا ہے:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اسی طرح شہر اور گائوں کا موضوع ہو یا عشق و محبت کا، صنف نازک کا عنوان ہو یا پھر یاد کا مضمون، ہجر و وصال ، فطرت نگاری اور جنس نگاری کو بھی احمد عطا اللہ کی شعری مثالوں سے واضح کر کے کتاب کی افادیت میں اضافہ کیا گیا ہے۔جو محقق کی محنت اور عرق ریزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسی طرح باب چہارم میں احمد عطا اللہ کے دوسرے شعری مجموعہ ’’ہمیشہ‘‘ کے مندرجات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے اور ہر پہلو پر سیر حاصل گفت گو کی گئی ہے۔اس باب میں خالص شعری اصطلاحات کا استعمال مجھ جیسے عام قاری کے لیے کچھ مشکلات بھی پیدا کر رہا ہے تاہم صاحبان علم اور تشنگانِ تحقیق ادب کے لیے یہ باب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔سابقہ روایات کے مطابق یہاں بھی ہر موضوع کو شاعر کی شعری مثالوں کے ساتھ واضح کرتے ہوئے تحقیق کی اہمیت و افادیت میں اضافہ کیا گیا ہے۔خصوصاً تحقیق کی خواہش مند حضرات مصنف اور تصنیف سے کسبِ فیض اور راہ نمائی حاصل کر سکتے ہیں۔یہاں ذوقِ طبع کی خاطر احمد عطااللہ کے چند اشعار شامل مضمون کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
تم کو قتل کریں گے اور پھر یاد میں تیری
تیرے نام کا سکہ جاری کر دیں گے
***
سازشی دل ! تجھے ہمت نہیں ہونے دوں گا
دوسری بار محبت نہیں ہونے دوں گا
***
ناامیدی کو کل پہ ٹالتے ہیں
آج کچھ راستہ نکالتے ہیں
***
پہلے دل کی پڑی ہوئی تھی ہمیں
اور اب جان کی پڑی ہوئی ہے
باب پنجم کو حاصل بحث کا نام دیا گیا ہے جس میں احمد عطااللہ کی شخصیت اور شاعری کو یک جا کر کے مصنف اور مختلف ادیبوں اور شعرا کی رائے کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں احمد عطا اللہ کے مختلف اوقات میں کیے گئے انٹرویوز کو بھی باب ہذا کا حصہ بنایا گیا ہے۔میرے خیال میں یہ باب مصنف کی تحریر کی پختگی ، وسعت خیال، تحقیقی کاوشوں اور ان تھک محنت کا مظہر ہے۔میں خود کو یہ کہنے میں حق بہ جانب سمجھتا ہوں کہ ایم اے کی سطح کا شاید یہ پہلا مقالہ ہو گا جو اس قدر پختہ تحریر کا حامل اور تحقیقی زاویوں کو ملحوظ رکھ کر مرتب کیا گیا ہو گا۔آخر میں سید شہباز گردیزی کا مضمون کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں انھوں نے محقق کی محنت، تخلیقی و تحقیقی کاوشوں کا خراج تحسین پیش کیا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فرہاد احمد فگارؔ زبان اردو کے احیا و املا اور تلفظ کی درستی کے علم بردار ہیںاور وہ جہاں اپنی تحریروں میں محتاط ہیں وہیں دوسروں کی اصلاح کا بیڑہ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔موصوف کا اردو زبان سے عشق دیکھ کر افتخارؔ مغل مرحوم کا شعر اُن کے نام کرتا ہوں۔
ابھی ہے عشق خطرے کے نشاں تک
یہ سیلاب اور بھی اوپر گیا تو؟
مجھے یقین واثق ہے کہ برادرم فرہاد احمد فگارؔ کی یہ تصنیف عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی اور مستقبل کے ادبی منظر نامے پر فرہاد کی تصویر نمایاں طور پر دیکھی جا سکے گی۔