وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ ومحصولات ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاہے کہ حکومت کو اقتصادی بحران ورثہ میں ملاتھا ڈالر کی قدرکو مصنوعی طورپر کم رکھنے کے لیے فارن ایکسچینج کو جھونکا گیا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی آئی۔ مشیرِ خزانہ غلط بھی نہیں کہہ رہے، اگر وہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمادیتے کہ خود پی ٹی آئی کو کتنے وزیروں اور مشیروں کے علاوہ بہت سارے ماہرین اقتصادیات و شماریات وراثت کے بٹوارے میں ملے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
مشیر خزانہ کی یہ بات حلق سے اتر کر نہیں دے رہی کہ ن لیگ نے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طریقے سے بر قرار رکھا۔ اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے تو ہمیشہ یہی سننے میں آیا کرتا تھا کہ اگر ڈالر کی قدر میں ایک روپے کا بھی اضافہ ہوجائے تو قرضوں کی مد میں کھربوں روپوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر نواز دور میں ڈالر کی قدر میں چند روپوں کا اضافہ قرضوں کی مد میں کھربوں روپوں کا بوجھ بڑھ جانا تھا تو اب ن لیگ کے دور کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافے کو کس کھاتے میں گنا جائے گا؟۔
پی ٹی آئی کے ایک اور ماہر اقتصادیات جلسوں، پریس کانفرنسوں اور اسمبلی کے فلور پر باقائدہ کیلکولیٹر ہاتھ میں لے کر پوری قوم کو بتایا کرتے تھے کہ ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ معیشت کے توازن کو کس بری طرح متاثر کرتا ہے اور غیر ملکی قرضوں میں کتنے اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ ان کا حساب کتاب بھی غلط نہیں تھا لیکن ایک عجب لطیفہ یہ ہوا کہ جب ڈالر کی قدر میں دو گنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا اور پی ٹی آئی کے ذمہ داران سے اس کی بابت سوالات کیے گئے تو ایک ذمہ دار شخصیت نے جواب میں کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوجانے سے نقصان نہیں، فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے۔ پریس کانفرنس میں آئے صحافی حضرات یہ سن کر ششدر رہ گئے اور وضاحت چاہی کہ تو فرمایا کہ پہلے جب آپ ایک ڈالر کیش کرانے جاتے تھے تو آپ کو 64 روپے ملا کرتے تھے لیکن اگر آج آپ ایک ڈالر کیش کرانے جائیں تو آپ کو 160 روپے ملیں گے۔
ان کی فلاسفی درست ہی لگتی ہے۔ میں نے جب اس پر غور کیا تو مجھے لگا کہ ن لیگ کے دور میں ڈالر کی قدر میں اضافے کو حقیقی انداز میں روکا گیا تھا یا نہیں لیکن پی ٹی آئی کے دور میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ضرور “مصنوئی” طریقے سے کیا گیا ہے۔ باالفاظ دیگر روپیہ اتنا بھی بے قدرہ نہیں ہو گیا تھا کہ اس کو کاغذ کا پرزہ بنا کر رکھ دیا جاتا لیکن ایسا سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ ڈالر مجھ جیسے غریب آدمی کے پاس کب ہوا کرتا ہے۔ جس ملک میں قانون ایک ڈالر کیش کرانے والے کی پوری کھال کھینچ لیا کرتا ہے وہ شخص ویسے بھی اپنی جان عذاب میں کیسے ڈال سکتا ہے۔ ڈالرز یا تو طاقتوروں کے پاس ہوا کرتے ہیں یا لٹیروں کے پاس۔ جس چوہدری، ملک، سردار، خان، زمیندار، مل اونر، کارخانہ دار یا وڈیرے کے گھر پر چھاپا مارا جاتا ہے وہاں سے غیر ملکی کرنسی اتنی بھاری مقدار میں برآمد ہوتی ہے جن کو گننے کیلئے کئی کئی مشینیں ہفتوں بھی گن نہیں پاتیں۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ تو ان جیسے لوگوں کیلئے کیا گیا تھا۔
یہی وہ تمام طبقے ہیں جو بڑی بڑی جاگیروں کی مالک ہیں، پاکستان کے ایک ایک چپے کو خرید کر اپنی دولتوں میں اضافہ در اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ جس تیزی کے ساتھ ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا گیا، زمینوں اور جائیدادوں میں اضافہ تاحال دیکھنے میں نہیں آیا گویا جو پراپرٹی اور زمینیں ایک لاکھ ڈالر کے عوض خریدی جاتیں تھیں انھیں چند ہزار ڈالرز میں خرید لیا گیا یوں ایک جانب زمینوں اور جائیدادوں میں اضافہ ہوگیا تو دوسری جانب ڈالروں کی بچت بھی ہو گئی۔
مشیر خزانہ فرماتے ہیں کہ اقتصادی بحران انھیں وراثت میں ملا تھا۔ بات یہ بھی سچ ہی ہے لیکن ن لیگ بھی پاکستان کی اقتصادی صورت حال کو اپنے جہیز میں لیکر تو نہیں آئی تھی۔ 1947 میں قائم ہونے والی حکومت کے بعد پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں بنیں ان سب کو جو کچھ بھی ملا وہ وراثت میں ہی تو ملتا رہا ہے۔ 1947 سے 1958 تک پاکستان صرف ملک تھا۔ جب باپ (حکومت) کو قتل کردیا گیا تو وراثت بن گیا۔ ہر آنے والے نے اپنے پچھلوں کے سر ہر منفی بات کو ڈالنے کی ایسی ریت ڈالی کہ اس کا سلسلہ شاید قیامت تک چلتا رہے۔ پاکستان ختم کر دیا گیا اور پاکستان کے ہر شعبے کو وراثت قرار دے کر اس کی ہر کمزوری کو پچھلوں کے سر پر منڈھا جانے لگا۔
بے شک ہر پچھلا دور اگر بیشمار تعمیری کام کرتا ہے تو کچھ نہ کچھ کمیاں بھی ضرور رہ جاتی ہونگی۔ آنے والے کو کوتاہیوں کو خوبیوں میں بدلنے والے اقدامات اٹھا کر اس میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسا ہوگا تو ملک میں خوشحالی آئے گی ورنہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والی مثال ہی صادق آئے گی۔