آرٹ کی قدر

انسان کی خواہشیں کتنی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں،وہ جب کچھ کرتا ہے تو بدلے میں صرف کچھ تعریفی کلمات سننا چاہتا ہے،وہ بس اپنے کئے کی قدر چاہتا ہےاور شاید یہی چاہ انسان کو رول کے رکھ دیتی ہےیا یوں کہہ لیجئے اسکے اندر کے اس انسان کو مار دیتی ہے جو اسے اکساتا ہے کہ تم اپنے ہنر کو برئے کار لاؤ اور پھر لوگ تمہیں سرا ہینگے،پر حقیقت اس سے مختلف اور تلخ ہےاور جب اسے سراہا نہیں جاتا تو وہ شخص اپنی موت آپ مر جا تا ہے….

آج سے کچھ سال پہلے اردو کی کتاب میں “ادیب کی عزت”پڑھا تھا…اس کہانی کا مرکزی خیال یہی تھا کہ ادیب کو نہ کسی محفل نہ کسی اور جگہ عزت دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے لکھے کے قدر دان ہوتے ہیں عزت صرف شاید پیشوں اور امیر لوگوں کے لیےمختص کر دی گئ ہےیا پھر ان کے ادب کی قدر تب ہوتی ہے جب وہ بہت ٹھاٹ بھاٹ والے ہوں….

اگر آج کے دور میں دیکھا جائے تو ایک ماڈل کی تصویر پر شیر،لائکس اور کمنٹس زیادہ ہوتے ہیں…ایک ناچتی گاتی ہوئی عورت کے پیج پہ بھی مداحوں کی تعداد ان گنت ہوتی ہے.اور اس کے بالکل برعکس ایک لکھاری بمشکل لوگوں کو اس بات پہ آمادہ کر پاتا ہے کہ اس کے لکھے کو پڑھیں….

ایک ماڈل کے پیج پہ جتنی بھرمار ہوتی ہے اس سے آدھے بھی کسی ادبی پیج پہ نظر نہیں آتے….

لوگوں کے ایسے رویے کی وجہ سے بہت سے اچھے لکھاری دل چھوٹا کر کے لکھنا چھوڑ چکے ہیں..ان کا دل درد کی گہری دلدل میں دھنسا ہوا ہے کہ ان کے آرٹ کی قدر نہیں جبکہ ایک آدھے ادھورے لباس میں ملبوس عورت سب کی توجہ کا مرکز ہے،اس کے مداحوں کی تعداد ان گنت ہے اور دوسری جانب آرٹ والے کسی گنتی میں ہی نہیںـتبھی ایسے لوگ گھٹ گھٹ کر اپنی موت آپ مر جاتے ہیںـ

آپ بھی ذرا ملاحضہ کریں کہ کسی کی لکھی ہوئی تحریر کو آپ کتنے غور سے پڑھتے ہیں،آیا آپ پڑھتے بھی ہیں یا نظر انداز کر کے اگلی پوسٹ پر چلے جاتے ہیں..

ادب کو جانیئے کسی کا لکھا پڑھ کر اسکا حوصلہ بڑھایئے  ہو سکتا ہے جو چیز آپ کے لیئے ایک فضول سی تحریر کی حامل ہو اس پہ کسی کی متاع حیات کا دارو مدار ہوـذرا سوچیے !!

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں