صدافسوس ہے کہ آج ہمارے پارلیمنٹ ہاو ¿سز جانجال پورہ ، مچھلی بازار اور ہارس ٹریڈنگ کا مرکز بن گئے ہیں۔ ایسے میں جہاں بجٹ کی منظوری کا انوکھا پن بھی دیکھنے کو ملاہے ۔تو وہیں یہ حکومت ، اپوزیشن اور سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیوں اور کھینچا تانی کا ہی نتیجہ ہے کہ مُلک میں پیٹرول سستاہوکر غائب ہونے کے بعد 25روپے مہنگا ہوکر کراچی سے کشمور تک تمام پیٹرول پمس اور مارکیٹ میں دستیاب ہوگیا ہے۔
جس کے بعدیہ شک سوفیصد یقین میں بدل چکاہے کہ مُلک میں حکومتی رِٹ نہیں ہے ۔حکومت کمزورسے کمزور ترہے ؛ اور مُلک میں ہر قسم کا مافیا طاقتورترین ہے۔غرض یہ کہ قیام پاکستان کے چند سالوں کے بعد سے ہی وطنِ عزیز میں مافیاخواہ ایوان العوام /پارلیمنٹ میں (عوامی پرچی / ووٹ کے زور پر) مینڈیٹ کا نام لے کر بیٹھے وزراءہوں ، اداروں میں میرٹ کا قتلِ عام کرنے کے بعد سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر تشریف فرماافسرشاہی اور اِن کے چیلے چانٹے ہوں۔ جعلی پائلٹس ہوں، کالی پینٹ اور سفید شرٹ والے ہوں، سفید گون والے ہوں،سڑکوں پر کشکول اُٹھائے بھیک مانگنے والے ہوں یا پارلیمنٹ میں برسوں سے گورکھ دھن سے بجٹ بنانے والے وزیرخزانہ اور اِن کی ٹیم میں شامل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کارندھے ہی کیوں نہ ہوں۔
آج یہ سب کے سب مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔اَب اگر ایسے میں یہ کہا جائے تو کسی کو ناراض ہونے یا بُرا ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِسی لئے تو معذرت قبل اَزگفت،یہ عرض ہے کہ جس کوبھی میرے مُلک پاکستان میں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں اپنا ذاتی ، سیاسی ، فروعی،مسلکی اور مالی مفاد مقدم ہوتاہے۔ وہ فوراََ مافیاکے روپ میں پیش ہوجاتاہے۔اِس طرح خواہ ایوان میں بیٹھا چینی، آٹا،پیٹرول، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کا بحران پیدا کرنے والا کوئی بھی ہو سب ہی مافیا ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے؛ توپھرآج جتنے بھی ایوانِ نمائندگان ہیں۔سب میڈیا پربراہ راست پیش ہوکر قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھائیں کہیں کہ اِن کا تعلق کسی بھی ایسے مافیاسے نہیں ہے اور نہ کبھی رہاہے جو کسی بھی حوالے سے مُلک میں چینی ، آٹا ،گھی اور پیٹرولیم مصنوعات کا بحران پیدا کرکے اپنا ذاتی یا سیاسی فائدہ اُٹھاتاہے۔
بہر کیف ،مہنگائی اور بحرانوں سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں کے عوامی مسائل کے حل کے لئے قائم مچھلی بازار اور ہارس ٹریڈنگ کا آماجگاہ بنے پارلیمنٹ ہاؤس عوام کی توقعات پر پورانہیں اُتر سکا ہے۔ آج وفاقی حکومت کے پیش کردہ عوام دُشمن بجٹ کو مسترد کرنے کا دم بھرتے نہ تھکنے والی اپوزیشن بھی اپنے وعدے پر پورانہ اُترسکی ہے۔ اِس کے بھی وہ تمام دعوے اور وعدے ریت کے ڈھیر سے بھی کہیں زیادہ کمزور ثابت ہوگئے ہیں۔ جس پر عوام کو بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ بیشک ، حکومت کا پیش کردہ موجودہ بجٹ سِوائے حکومت کے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام پاکستانیوں نے یکسر مسترد کرتے ہوئے بجٹ کوکھلم کھلا عوام دُشمن بجٹ قرار دیاجبکہ اپوزیشن نے تو یہ بجٹکہہ کر حکومت کو للکار دیاتھا کہ دیکھتے ہیں کہ حکومت ہاؤس سے کیسے بجٹ پاس کراتی ہے؟
مگر چشمِ فلک اور پاکستانیوں نے بھی کھلی آنکھوں سے حیرت کے ساتھ یہ منظر بھی دیکھا کہ” قومی اسمبلی سے مالی سال 2020-2021ءکے لئے 72کھرب94ارب90کروڑروپے پر مشتمل مالیاتی 2020-2021ءکا بجٹ کثرتِ رائے160 حکومتی ارکان کی حمایت اور 119اپوزیشن مخالفین سے منظور ہوگیاہے۔ اِس کی علیحدہ لمبی بحث ہے۔ فی الحال سمجھنے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ بجٹ منظوری میں حکومت کو اپنی مطلوبہ تعداد سے بھی کہیں زیادہ حمایت ملی ہے۔ جبکہ اپوزیشن کو اپنے اندر اِس کا پتہ لگانا بھی بہت ضروری ہوگیاہے جو بظاہر تو اپوزیشن کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ مگر جب کبھی ایسا کوئی وقت آتا ہے۔ وہ حکومت کی جھولی میں غوطہ زن ہو کرحکومت کا پلڑا بھاری کردیتے ہیں ۔
اپوزیشن جو حکومت کے لئے کسی معاملے میں مقابلہ کرنے کے دعوے کرتی نظر آتی ہے۔یہ یکدم سے ہوا نکلے کسی غبارے کی طرح پھس ہو کر رہ جاتی ہے ۔ آج جہاں عوام کا مہنگائی اور بحرانوں کے چینلجز میں اپنی جان چھڑاتی حکومت پر سے اعتبار ختم ہوگیاہے۔ تو وہیں عوام کا اپوزیشن سے بھی مُلکی اور عوامی مسائل کے فوری حل سے متعلق فیصلہ کن قدم اُٹھانے اور حکومت سے جمہوری ثمرات عوام الناس پہنچانے کے لئے کسی قسم اچھائی کی توقع اورکوئی مثبت کردار اداکرنی کی اُمید بھی دم توڑچکی ہے ۔دوسروں سے قرضے اور امداد لے کر چلنے والے ہمارے مُلکِ عظیم پاکستان میں جمہوریت اُس طرح پن نہیں سکی ہے جس طرح اِس کی روح ہے ۔
دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں اِس کے ثمرات عوام الناس تک پہنچتے نظرآتے ہیں ۔ اِس کی ایک بڑی اور خا ص وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یا تو کسی خفیہ طاقت نے ایسا ہونے نہیں دیا ہے یا پھر کبھی خود سکسی حکمران نے حقیقی معنوں میں جمہوریت کے پنپنے اور جمہوری ثمرات عوام الناس تک پہنچانے سمیت عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہر ہ نہیں کیا ہے۔المیہ یہ ہواہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عوامی مسائل بڑھتے گئے اور عوام پستی کی دلدل میں گرتے چلے گئے ۔ایوانِ العوام جِسے عوامی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے چاہئے تھے۔ یہاں تو ذاتی، سیاسی اور اپنے مخالف کی ٹانگیں کس طرح کھینچی جائیں۔ اِن سے متعلق قراردادیں پیش کی جاتی رہیں۔
اِن تمام مسئلے مسائل پر ایوان بالا کے اجلاس بلائے جاتے رہے۔ جس میں نہ مُلکی اور نہ عوامی مسائل اور اِن کے فوری حل سے متعلق دلچسپی کا کوئی نقطہ زیربحث لایا جاتا، بلکہ بلائے گئے اِجلاس میںکبھی کبھار ایک آدھ بار ہلکی پھلکے چھوٹے موٹے انداز سے سوائے ایک دوعوامی مسائل کے علاوہ ساراوقت اِس پر لگ جاتاکہ حکومت اپوزیشن کو کس طرح زیر کرے، اور اپوزیشن والے کن حربوں کے بیدریغ استعمال سے حکومت کی کرسی کی چولیں ڈھیلی کریں اور حکومت کو چلتا کریں ۔ہمیشہ ہی وطن عزیز پاکستان میں پارلیمنٹ اپنے مخالفیں کو نیچادِکھانے اور گرانے کے لئے مچھلی بازار اور اِدھر کے اُدھر ایوان نمائندگان کو ساتھ ملانے کے لئے ہارس ٹریڈنگ کا ہی آماجگاہ بنارہاہے۔
حالیہ بجٹ می منظوری میں بھی یہی کچھ ہواہے تب ہی…!!تاہم ایک بات جو آخر میں ہر محب وطن پاکستانی سے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اہل علم و دانش کے نزدیک برسوں سے حقیقی معنوں میں وطنِ عزیز میں کرونا وباءسے زیادہ محسوس جبکہ حکومتی اراکین اور ایوانِ نمائندگان میں توغیر محسوس طور پر کرپشن، اقرباءپروی، سفارش ، قتلِ میرٹ، ہارس ٹریڈنگ اور ہر اقسام کے مافیاکی وباءسب سے زیادہ خطرناک ہے۔ مگر کسی نے بھی کبھی اِن اخلاقی وباءکا خطرہ اور اِن سے پیدااور آئندہ نسلوں تک منتقل ہونے والے دائمی نقصانات کے فوری ازالے سے متعلق سوچا ہی نہیں ہے۔ جب کہ اِس سے بھی اِنکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مندرجہ بالا تمام اخلاقی بُرائیوں سے مُلک اور معاشرے تباہ اور برباد ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے سِول اور آمر حکمرانوں جنہوں نے پلٹ پلٹ کا مُلک اور عوام پر اپنی جیسی تیسی حکمرانی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔
اِنہوں نے محسوس طریقے اور سنجیدگی سے مُلک میں کرپشن،اقرباءپروری،سفارش، قتلِ میرٹ، ہارس ٹریڈنگ اور ہر اقسام کے پیداہونے والے مافیاز کی ظاہر و باطن طور پر پست پناہی کرنے کی بجائے اِن اخلاقی اور سیاسی وباءکا قلع قمع کرنے کے لئے اپنا مثبت اور تعمیری کردار ا داکیا ہوتاتو آج مُلک کا نقشہ ہی اچھا ہوتا؛اور عوام اِس طرح پستی اور گمنامی و بدنامی کی اندھیری گہری کھائی میں نہ گرے ہوتے اِن کا بھی وقار دنیا میں بلند ہوتااور یہ بھی گردن تان کر اور سینہ پھولا کر دنیا میں چین اور سُکھ سے جی رہے ہوتے۔