زندگی ایک ایسے طویل اور کٹھن سفر کا نام ہے جس میں منزل تک پہنچتے ڈھیروں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور انہی مصائب میں غربت و افلاس بھی شامل ہے جس کا شکار لاکھوں لوگ ہیں۔ دنیا میں قریب کوئی سات ارب انسان بستے ہوں گے لیکن ان میں کئی خوش ذائقہ کھانا کھا کر سکون کی نیند سوتے ہوں گے تو کئی روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرتے ہوں گے اور کئی تو سوکھی روٹی سے بھی محروم رات بھر جاگتے سوچتے ہوں گے نہ جانے مزید کتنے دن انہیں بھوکا رہنا پڑے گا۔ اصل میں میرے ذہن میں یہ خیال تب آیا جب میں اپنے گھر کے گیٹ کے قریب پڑے ماہانہ بجلی کا بل اٹھا رہی تھی۔ بل دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ بھوکے پیٹ سونے والے لوگ یہ بل کیسے ادا کرتے ہوں گے۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی گیس سمیت اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے سبب ہونے والی مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقے کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ روز بروزبڑھتی غربت و مہنگائی سے لوگ تنگ آ چکے ہیں لیکن صد افسوس کہ ان کے تنگ آنے سے حکومت کو کیا فرق؟ انہیں تو بس عوام سے پیسہ بٹورنا ہے اور بس۔پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کیلئے موجودہ صورتحال باعث تشویش ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت یا پرانے سیاسی چہرے بھیس بدل کر نئے روپ میں اقتدار میں آتے ہیں تو غریب طبقہ ان سے اپنی خوشحالی کی ڈھیروں امیدیں باندھ لیتا ہے۔ انتخابات سے قبل ہر سیاسی جماعت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے مگر ہمیشہ سے ہی ہر حکمران نے ان کی امیدوں پہ پانی ہی پھیرا ہے۔ موجودہ حکومت کی بات کریں تو ان سے بھی غربت کی تاریکی اور مایوسی کے چنگل سے نکل کر خوشحالی کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں مگر افسوس کہ اس حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں والا کام شروع کر دیا۔آئی ایم ایف سے قرضوں سے آج ملک میں غربت و مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
موجودہ حکومتی اقدامات سے غریب اور متوسط عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہی سلسلہ رہا تو پاکستان کبھی بھی خوشحال ملک نہیں بن پائے گا۔ اس وقت جس امر کی ضرورت ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کا متحرک اور متحد ہو کر ملک کو اس غیر ملکی قرضوں کے چنگل سے آزاد کرانا ہے تا کہ غریب عوام کےلیئے آسانیاں پیدا ہوں نہ کہ غربت و مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو۔ اللہ اس ملک کا حامی و ناصر ہو۔