گزشتہ منگل کو چین اور بھارت کے متنازع علاقہ لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ہمسایہ ممالک کی فوجوں کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی، جس میں جنگی ہتھیاروں کا استعمال تو نہیں کیا گیا البتہ جن متبادل ذرائع سے کشیدگی ہوئی اس کا نتیجہ بھارت کو اپنے بیس فوجیوں کی لاشوں کی صورت میں ملا۔ اس خونی تصادم کوچین و بھارت کے درمیان 45 سال میں پہلی بارہونے والی مہلک ترین لڑائی قرار دیا جا رہا ہے۔لداخ چین بھارت کا سالوں پرانامتنازع علاقہ ہے اور دونوں ممالک اس بات پر بضد ہیں کہ وادی گلوان پر اس کا حق ہے۔ منگل کے روز چین بھارت لائن آف کنٹرول پر ہوئی شدید جھڑپ کی وجہ بھی یہی بتائی جارہی ہے کہ بھارتی فوج نے اپنا حق تسلط جماتے ہوئے چینی فوج کو اشتعال دلایا اور ان پر سخت ترین حملوں کی کوشش کی، جس کے جواب میں چین کو بھی ہاتھ کھولنے کا موقع مل گیااور اس نے اگلے پچھلے سارے حساب برابر کردیے۔
گو کہ اس کشیدگی کوچین بھارت کے درمیان فوجی سطح کے مذاکرات کرکے حل کر لیاگیا ہے، مگر عالمی برادری کو ان دو بڑے ممالک کے سرحدی تنازع پر تشویش ختم نہیں ہورہی۔ اس لیے بھارت کی چین کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد مودی سرکار پر عالمی دباؤ بڑھ چکا ہے اور سب سے زیادہ تنقید جرمنی کی طرف سے کی جارہی ہے۔جرمنی اگلے ماہ جولائی2020 میں یورپی یونین کا صدر بن جائے گا اور سلامتی کونسل کا رکن ہونے کی حیثیت سے اسے حق ہے کہ وہ بھارت کو سرحدی دراندازی کرنے سے منع کرے۔ اسی طرح سلامتی کونسل کے رکن ممالک خاص طور سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چین بھارت اپنے علاقوں میں فوجی جھڑپوں کو روکیں اور بھاری جنگی ہتھیاروں کا استعمال نہ کریں۔ خدشہ ہے کہ اگر بھارت ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی بات پیٹھ پر ڈالتا ہے اور اپنے پڑوسی ممالک سے سرحدی کشیدگی برقرار رکھتا ہے تو اس سے چین ، پاکستان ، نیپال جن کی سرحدیں بھارت سے متصل ہیں کو خطرہ لاحق ہوگا ،بلکہ بھارت خطے کے امن و امان کو بھی سمندر برد کردے گا۔
پاکستان میں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کشیدگی نئی اسٹریٹیجک صف بندی کی عکاس ہے اور پاکستان بھی اس صف بندی کا حصہ ہے۔ ایک طرف امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت ہیں، جو چین کا اسٹریٹ آف ملاکا میں راستہ بندکرنا چاہتے ہیں اور اس لیے وہ مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان، نیپال، چین، بھوٹان اور خطے کے دوسرے ممالک ہیںجو سرحدی تنازعات میں بھارت کی سرحدی قوانین کی خلاف ورزیوں سے تنگ ہیں۔ چین ان مشکلات کا خاتمہ چاہتا ہے بلکہ وہ بحرانی صورت میں متبادل روٹ بھی اختیارکرنے کو تیار ہے ، جو اسے پاکستان سی پیک کی شکل میں فراہم کررہا ہے۔ اس اسٹریٹیجک سطح پر پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات پہلے ہی بہت مضبوط تھے، لیکن لداخ میں کشیدگی کی وجہ سے دونوں کے مفادات بہت حد تک ایک ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اسٹریٹیجک تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہوگئی ہے۔ لداخ میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حامل ملک بھارت کی ہندو پریشد نظریہ کی حامل مودی سرکارپر تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔جس کے بعد سرحدی کشیدگی میں اضافے اور لائن آپ کنٹرول پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کارروائیوں پر پاکستان نہ صرف اپنے سرحدی علاقوںمیں کشیدگی پر نظر رکھے ہوئے ہے ،بلکہ وہ تنقیدی طوفان کا بھی بغور جائرہ بھی لے رہا ہے۔
اس سرحدی اکھاڑے میں اب نیپال بھی لنگرلنگوٹ باندھ کرگھس گیا ہے اور چار دن قبل رات کے تین بجے نیپالی فوج نے بھارت سے جڑی اپنی سرحد جس میں کالا پانی،لیپولیک اور لمپیاگور کے سخت ترین پہاڑی علاقے شامل ہیں،نیپالی فوج نے بھارتی فوج پراپنی سرحد کے پاس شدید حملے کیے ۔ اس اچانک اور رات کے آخری حصے میں نیپالی فوج کی سرحدی کارروائی سے بھارتی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور سرحد پر ماموربھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکار مورچوں سے دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ چین سے تین درجن فوجیوں کے تابوت تحفے میں لینے کے بعد بھارتی فوج کا دماغ ٹھیک نہیں ہوا تواس نے پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں ،لائن آف کنٹرول پر گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل سیز فائر کی خلاف ورزیاںکی ہیں۔ جس کا پاکستانی افواج نے بھی بھرپور جواب دیا اور کئی سرحدی علاقوں میں کشیدگی کا سبب بننے والے بھارتی مورچوں کے منہ بند کردیے۔
بھارتی فوج چین سے شدیدجانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہی۔ اس سرحدی جنگ بازی میں نیپال کا اپنے متنازع علاقوں کی طرف اچانک پیش قدمی کرنا،بھارت کے خطرناک عزائم کو بے نقاب کرنا ہے اور یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ بھارت کا جنگی جنون اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس لیے بھارت کے پڑوسی ممالک اپنی سرحدوں کی حفاظت مزید سخت کرنے کے لیے فوجی کمکیں متنازع علاقوں میں بھیج رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اب سرحدی علاقوں میں خانہ جنگی کو ہوا دینے کی سوچ رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ چین ، پاکستان اور نیپال کے سرحدی علاقوں کو ہڑپ کیا جائے۔بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسے تین سرحدی محاذوں پرشکست کا منہ دیکھنا پڑے گا، کیوں کہ چین ، پاکستان کے بعد اب نیپال نے بھی موقع دیکھ کر چوکا مار دیا ہے۔