ساغر صدیقی کاایک مشہور شعر ہے ؎
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
اسی ضمن میں ساحر لدھیانوی فرماتے ہیں ؎
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا ہم نے توجب کلیاں مانگیں، کانٹوں کا ہار ملا
دونوں اشعار بہت مشہور شعرا کرام کی میراث ہیں مگر اگر آپ ادبی و شعری فہم سے ہٹ کر نفسیاتی اعتبار سےان اشعار کے معنی و مفہوم پر غور فرمائیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان دونوں اشعار میں حسرت، یاس اور ذاتی غموں کی ایسی درد ناک داستان نظر آتی ہےجس کے مرکزی کردار کو زندگی سے دکھوں اور ٹھکرائے جانے کے احساس کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اردو شعر و ادب میں آپ کو اسی طرح کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ اگر اس دنیا کو سطحی انداز سے دیکھنے کے بجائے عقل و حکمت سے پرکھاجائے اور خدا کے طے کردہ اصول و ضوابط کو مد نظر رکھا جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ یہ دنیا فقط دارالامتحان ہے۔
آزمائشیں و مشکلات اور مصائب و آلام ہر نفس کو لازماً جھیلنے ہیں۔ اگر اس بات پر یقین ہو جائے کہ مسائل اس زندگی کا لازمی حصہ ہیں تو نہ صرف یہ کہ ان مسائل سے نمٹناہمارے لئیےآسان ہو جائے گا بلکہ ساتھ ساتھ ہر وقت شکوہ کناں رہنے کے بجائے ہم زندگی کو مثبت اور با مقصد بنانے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ یعنی صرف سوچ و فکر کے انداز کو تبدیل کرنے سے بہت ساری نفسیاتی و ذہنی الجھنوں سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ یہ اس لئیے ضروری ہے تاکہ آپ ایک بہتر اور خوبصورت زندگی گزار سکیں۔ ایک ایسا انسان جو اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش و خرم ہو وہ نہ صرف یہ کہ اپنے خاندان اور احباب کے لئیے باعث فخر ہوتا ہے بلکہ وہ پورے معاشرے اور بسا اوقات پوری انسانیت کے لئیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا ایسے افراد کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ایک بامقصد، مثبت اورخوبصورت زندگی گزاری اور رہتی دنیا تک کے لئیے ایک نمونہ عمل اورمثال بن گئے۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ بھی مثبت طرز زندگی اپنا کر خاندان اور معاشرے کے لئیے مثال بنیں؟؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ محض سوچ کی معمولی تبدیلی آپ کی پوری زندگی کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے؟؟ مثبت سوچ اپنانا مشکل نہیں۔ تھوڑی سی محنت، توجہ اور کوشش آپ کو ایک خوبصورت راستے کی طرف لے جا سکتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس کی شروعات کہاں سے اور کیسے کی جائیں۔ خود ترسی و خود مظلومی کے حصار سے باہر آجائیے،یہ وہ سوچ ہے جو انسان کو ہر لمحہ بے چین اور ماتم کناں رکھتی ہے۔ ہر وقت خود کو مظلوم گرداننا اور یہ سمجھنا کہ میں کائنات کا سب سے مظلوم ترین انسان ہوں جس کے ساتھ قدرت نے کبھی اچھا نہیں کیا، ایسی سوچ آپ کی ذہنی صحت کے لئیے زہر قاتل ہے۔
ہر انسان کی زندگی میں کچھ خوشیاں ہوتی ہیں اور کچھ غم۔ خود مظلوم انسان خوشیوں اور نعمتوں کو محسوس کرنا اور ان کی قدر کرنا نہیں جانتا اور محض اپنے غموں کی پوجا میں لگا رہتا ہے۔ اس سوچ سے چھٹکارا جتنی جلدی ممکن ہو حاصل کیجئیے۔ اپنے پاس موجود نعمتوں کو محسوس کرنا سیکھیں نیز زندگی کے خوشگوار لمحات کو یاد رکھیں۔ اپنی ذات کے خول سے باہر آ کر دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہونا اور ان کے غموں کو ذاتی غموں کی طرح محسوس کرنا مثبت طرز زندگی کی اہم علامت ہے۔
منفی روئیوں کو برداشت کرنا سیکھیں:
زندگی کے پُر پیچ راستوں پر آپ کو بارہا منفی روئیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مثلا حسد، طنز و حقارت، طعنہ زنی ، جھوٹ اور دھوکہ دہی وغیرہ۔ ان روئیوں کو ذہن پر ہر وقت طاری رکھنا اور دل ودماغ کو ہر لمحہ جوابی جنگ میں جھونکے رکھنا آپ کی دماغی صلاحیتوں کے لئیے شدید نقصان دہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ایسے روئیوں پر آنکھ اور کان بند کر کے اپنا راستہ جدا کر لیا جائے۔ اس لئیے نہیں کہ آپ کمزور ہیں اور جواب دینے کے قابل نہیں بلکہ صرف اس لئیے کہ آپ کی صلاحیتیں کسی بلند مقصد میں صرف ہونےکے بجائے اس حقیر کام میں صرف ہوں، یہ آپ کو گوارا نہیں ہونا چاہئیے۔
مثبت تنقید کا خیر مقدم کریں:
یاد رکھیں لوگ اسی درخت پر پتھر مارتے ہیں جو پھلدار ہوتا ہے۔ ہمیشہ ہر تنقید غلط نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمیشہ ہر تنقید کرنے والا فرد آپ کا دشمن ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ارد گرد موجود مخلص لوگ آپ کی کسی غلط عادت یا تکلیف دہ روئیے کی نشاندہی کریں تواس پر ناراضگی یا غصے کے اظہار کےبجائے ٹھنڈے دل سے اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بارے میں سوچئیے۔
تنقید کو برتنے کے دو طریقے ہیں۔
پہلا یہ کہ آپ سوچیں کہ ہر وقت ہر کوئی میرے ہی اوپر کیوں تنقید کرتا رہتا ہے؟؟ کوئی مجھے اپنے مطابق چین سے جینےکیوں نہیں دیتا۔ سب مجھ سےجلتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اکثر افراد اسی انداز سے سوچتے ہیں اور خود کو تبدیل کرنا اپنی انا کے برخلاف سمجھتے ہیں۔
دوسراطریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی ذات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں کہ آیا یہ بات واقعی میرے اندر موجود ہے یا نہیں؟ اور کیا واقعی میری یہ عادت دوسروں کے لئیے تکلیف کا باعث ہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تودیر نہ کیجیئے، فی الفور اپنی اس عادت کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں تاکہ تنقیدی تبصروں کو کم کیا جا سکے۔ مثلاً اگر آپ کو غصہ بہت جلدی اور شدید آتا ہے اور آس پاس لوگ آپ کو اس حوالے سے اکثر ٹوکتے ہیں تو بہتر آپشن یہی ہے کہ آپ اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ تاکہ اپنی شخصیت پسندیدہ اور قابل تقلید بنا سکیں۔
ماضی کی تلخ یادوں سے پیچھا چھڑائیں:
غالب نے کہا تھا ؎ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ایک عقلمند شخص ماضی کے گرداب میں پھنسے رہنے کے بجائے حال اور مستقبل کی فکر کرتا ہے۔ ماضی کے کسی بھی تلخ یاد کو اپنی زندگی کے لئیے بلیک ہول نہ بنائیں۔ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑیں۔ حال میں جئیں اور زندگی میں آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کریں۔ اقبال کہتے ہیں ؎
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا کہ تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
نمود و نمائش سے اجتناب برتیں:
فخر و غرور اور دکھاوا انسان کو بہت سی ذہنی الجھنوں میں مبتلا رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی خاندانی محفل کی بات کی جائے تو کسی بھی محفل کا اصل مقصد میل ملاپ، خوشی یا غم میں شریک ہونا اور اس کے ذریعے دماغ کو تفریح دینا ہے۔ مگر اس کے برعکس اگر آپ ایک محفل کومحض کپڑوں اور جیولری کی نمائش ، دولت کے اظہار اور رسمیہ جملوں کے تبادلے کے طور پر دیکھتے ہیں تو یقین کریں آپ کا یہ منفی انداز فکر دوسروں کے ساتھ ساتھ خود آپ کی ذہنی صحت کے لئیے بھی نقصان دہ ہے۔ مصنوعی بناوٹ اور تکلف سے گریز کریں۔ سادہ زندگی جئیں ۔ خواہشات اور ضروریات کے درمیان لکیر کھینچنا نہایت ضروری ہے۔
اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو نہ ٹھرائیں:
یہ بہت اہم بات ہے۔یہ وہ سوچ ہے جو ہمیں کبھی بھی اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھنے نہیں دیتی بلکہ ہمارے آگے بڑھنے کے راستے بھی مسدود کر دیتی ہے۔ اپنی ناکامیوں کا کلی ذمہ دار زمانے، سماج، رسوم و رواج یا کسی دوسرے شخص کو قرار دینا محدود اور سطحی سوچ ہے۔ کامیاب آدمی کی نشانی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا تجزیہ کر کے آئندہ کے لئیے بہتر حکمت عملی منتخب کرتا ہے۔ مشہور قول ہے: پہلی ناکامی سے نہ گھبراؤ یہی تمہارے عروج کی پہلی سیڑھی ہے” مگر ناکامی کو عروج کی سیڑھی بنانا آپ کی سوچ پر منحصر ہے۔ ناکامی کو ٹھنڈے دل سے قبول کریں اور اگلی دفعہ زیادہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتریں۔ ہار نہ مانیں مگر ناکامی کی وجوہات جان کر انہیں رفع کرنا ضروری ہے۔
صلے اور ستائش کی امید نہ رکھیں:
توقعات انسان کو مار دیتی ہیں۔ چاہے وہ رشتوں کے حوالے سے ہوں یا دنیا کے حوالے سے ہوں۔ اگر پوری ہو جائیں تو فبھا، مگر اگر پوری نہ ہوں تو دلوں میں دراڑ اور تلخیاں جنم لیتی ہیں۔ بہتر سوچ یہی ہے کہ آپ توقعات باندھنا چھوڑ دیں۔ اپنے ذمہ داریاں پوری کریں اور رب سے اجر کی امید رکھیں۔ یاد رکھیں اس دنیا میں کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سکون و خوشیاں فراہم کر سکے یا اس کی توقعات کو پورا کر سکے۔ لہٰذا جو عمل کسی کے بس میں ہی نہ ہو اس کی آس لگانا بے وقوفی ہے۔ رب سے اجر کی امید رکھیں۔ اس کا پھل دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔
اخلاقی کمال پیدا کریں:
اخلاقی کمال پیدا کرنا مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں۔ اور یہ کام دنوں یا ہفتوں میں نہیں سالوں پر محیط ہے۔ مگر یقین کریں جب آپ تمام تر منفی روئیوں سے ایک ایک کر کے چھٹکارا حاصل کرنا شروع کریں گے ، آپ کو ایسا ذہنی سکون نصیب ہو گا کہ آپ خود حیران رہ جائیں گے۔ حسد، نفرت، غصہ، انتقام، جھوٹ، دھوکہ، غیبت، چغلی، تجسس، بد گمانی، بد زبانی۔۔۔۔ یہ وہ ساری منفی صفات ہیں جو خود آپ کی ذہنی صحت کے لئیے کینسر کی طرح ہیں۔ ان کو درجہ بدرجہ چھوڑنے کی کوشش کریں۔ اصلاح ذات سے بڑھ کر کوئی عمل ایسا نہیں جو آپ کو خوشگوار زندگی کی طرف لے جا سکے۔
خود کو مثبت/ بامقصد سرگرمی میں مصروف کریں:
کہا جاتا ہے کہ ” خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے”۔ لاحاصل سوچوں اور بیکار لمحات میں زندگی ضائع کرنے کے بجائے ضروری ہے کہ خود کومصروف رکھیں۔اب سوال یہ ہے کہ مثبت یا با مقصد سرگرمی سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب بہت غور طلب ہے۔ ہر وہ سرگرمی مثبت ہے جواپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئیے یا ارد گرد کے ماحول کے لئیے فائدہ مند ہو اور آپ کی تخلیقی صلاحیت کو ابھارے۔ مثلا. باغبانی، درس و تدریس، پینٹنگ، خطاطی، تخلیق نگاری وغیرہ۔ خواتین کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوکنگ، گھر کی صفائی ستھرائی، بچوں کی تعلیم و تربیت۔۔۔ یہ سارے امور بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔
حرف آخر:
کہا جاتا ہے کہ سوچ بدلتی ہے تو انسان بدلتا ہے”۔ اگر آپ ایک خوبصورت زندگی گزارنے کے متمنی ہیں تو اپنی فکر اور خیالات کو مندرجہ بالا تجاویز کے آئینے میں تبدیل کریں۔ ضروری ہے کہ زندگی کے متعلق اپنے مخصوص نظریات کی اصلاح کریں۔ کانٹ جھانٹ کا عمل تا زندگی جاری رہنا چاہئیے۔ وسعت نظری اور فکری بالیدگی ہی ایک کامیاب اور مثبت زندگی کی ضمانت ہیں۔