بلاشبہہ دین اسلام کے غلبے کے لئے مسلمان کے دل میں دینی غیرت و حمیت کی دولت وہ بنیادی ضرورت ہے،جس کے ماسواے دین کے مدعا و مقصد کا پورا ہونا نا ممکن ہے۔ دین میں حمیت کا مقام ایسے ہے جیسے زندہ جسم کے لئے حرارت و حرکت۔ دینی حمیت کی حرارت ہی زندگی کو کثافتوں سے پاک کرتی ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اعلی ہمت اور دینی حمیت کا شاہکار وہی شخص ہوا کرتا ہے،جس میں اپنی ذات،معاشرے اور دین کے لئے غیرت و حمیت موجود ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم امت کے بارے میں سب سے زیادہ غیرت مند تھے اور اللہ تعالی تو انبیا سمیت اپنی ہر مخلوق سے زیادہ غیرت مند ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے غیرت و حمیت کے موضوع پر گفتگو کے دوران حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کا جواب دیتے ہوے فرمایا: “کیا تم سعد کی اتنی شدید غیرت مندی پر محو تعجب ہو؟ میں سعد سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہیں۔”
سیدی منور حسن رحمه الله نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت مطابق اپنے ہم عصر لوگوں میں سے امت اور دین کے بارے میں بہت ہی زیادہ غیرت رکھتے تھے۔ آج قلم ہاتھ میں ہے،لیکن ہاتھ کانپ رہے ہیں،خارج از فہم ہے کہ کس پہلو سے لکھنے کی ابتدا کروں۔کبھی گمان بھی نہ تھا کہ کسی روز مجھے سیدی منور حسن رحمہ اللہ کے بارے میں تعزیتی مضمون لکھنا پڑیگا۔
بلاشبہہ وہ دار فانی سے دار ابدی کوچ کر چکے ہیں۔ لیکن وہ اندھا دھند طوفانوں کی موجوں میں بھی بھرپور قوت اور امن و سلامتی کے ساتھ دعوت دین کے میدان میں برسرپیکار رہے۔امت کی بھرپور رہنمائی کرتے ہوے شان و شوکت اور عظمت کی بلندیوں پر آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔وہ اپنی لکھی ہوئی تقدیر پر لبیک کہتے داغ مفارقت دے گئے۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)
منور حسن رحمہ اللہ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کا نام تھا،جو فی سبیل اللہ کسی “لومة لائم”کی فکر کئے بغیر دعوت دین کا کام کرتے ہوے ہم سے رخصت ہو چکے۔ انہوں نے سنگلاخ چٹانوں میں دعوت دین کا راستہ نکالا!انہوں نے اپنے راستے میں موجود کانٹوں کو پھولوں میں تبدیل کردیا۔وہ صرف گفتار کے غازی نہ تھے،ساتھ ساتھ وہ کردار کے غازی بھی تھے۔وہ ایسے بادبان تھے کہ تند و تیز طوفانوں میں بھی بڑی مہارت سے کشتی نکال لیتے۔
سیدی منور حسن ایک عظیم قوت کا نام تھے۔ایسی روحانی قوت جس نے ظلمت کی شب کو نورانیت میں بدل کر رکھ دیا۔ان کا اسم منور حسن ضرور تھا،لیکن ان سے جو بھی ملا نور ایمان سے منور ہوگیا اور اس کے مومن دل میں ایمان کی برقی روجاگزیں ہوگئی۔سیدی منور حسن قائد کے ساتھ ساتھ ایک ادیب،دانشور اور ممتاز علمی شخصیت بھی تھے،جو اپنا ایک مؤقف رکھتے تھے،جس پر دلالت کے لئے ان کا طرز تکلم و تحریر ہی کافی ہے۔
وہ رحم و شفقت اور سخاوت کا نام تھے، وہ انتہائی رقیق القلب انسان تھے۔اس قدر حساس تھے کہ اپنے رفقا اور اعزا کے مسائل اور پریشانیوں پر نظر رکھتے تھے۔بحیثیت مربی انہوں اسلام کا علم اٹھاے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں،کارخانوں میں،مارکیٹوں میں بلا تحدید رنگ و نسل اسلام کی دعوت کو پہنچایا۔
غلبہ دین کے حوالے سے “ليظهره على الدين كله”…..”ولو كره المشركين”سامنے رکھتے ہوے لوگوں کی تربیت کرنا،ان کا تزکیہ نفس کرنا،ان کی تعمیر سیرت کرنا،ان کو کردار کے سانچوں میں ڈھالنا،انہیں جد و جہد کا پیکر بنانا،انہیں کشمکش مول لینے کے لئے تیار کرنا،ان کو راہ مستقیم کی مشکلات سے آگاہ کرنے کے ساتھ اس کے لئے تیار کرنا،منور حسن کا مشن قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی اور بندگان خدا کی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضاے الاہی کا حصول تھا،جس کی جد و جہد کے لئے وہ لوگوں کو خوگر بناکر گئے۔
ہماری آخری تفصیلی ملاقات اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں ایک ریسرچ ورکشاپ کے دوران ہوئی۔آپ ایک مثالی قائد تھے۔ آپ کے لئے میں یہی عرض کروں گا ؎
“توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے تھا۔”
اللہ تعالی کی بے شمار رحمتیں ہوں آپ پر سیدی،…آمین۔