گلی میں نہ توکوئی رش نظرآرہا تھا اور نہ ہی کسی کو معلوم ہوا کہ گلی میں موجود ایک گھرانے پر قیامت گزر گئی ، ہر کوئی اس انتظار میں تھا کہ پہل کون کرے، کیوں کہ مسئلہ کفن دفن کے ساتھ ساتھ اس گھر کے اخراجات کا بھی تھا، پھر کچھ لوگوں نے آپس میں صلاح مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ کفن دفن پر جو بھی خرچہ ہوگا وہ آپس میں بانٹ لیں گے ، یہ فیصلہ ہوتے ہی گلی میں آہستہ آہستہ رش بڑھنا شروع ہوگیا اور لوگوں نے اس گھر کی جانب قدم بڑھانا شروع کردیے جس گھرمیں کچھ دیر پہلے بچوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ خواتین اپنی چادر سمیٹتے ہوئے گھرمیں داخل ہو رہی تھیں اور گلی کے مرد حضرات ملک میں جاری لاک ڈائون اورمعیشت کی بحث میں لگ گئے۔ کسی کو یہ فکر نہ تھی کہ اب اس گھر کا کیا ہوگا۔
رفیق بھائی گزشتہ 15سالوں سے چارپائی پر تھے ، ایک وقت تھا جب وہ کمایا کرتے تھے اور پورا کنبہ کھایا کرتا تھا، ان کا روزگار بہتر تھا ،ان کے پاس جو بھی سوالی بن کر آیا رفیق بھائی نے اسے مایوس نہیں لوٹایا ۔ لیکن پھر کایا پلٹی اور ایسی پلٹی کے سب کچھ ختم ہوگیا۔ یہ رفیق بھائی اور ان کے گھر والوں پر ایک امتحان تھا جس میں رفیق بھائی تو سرخرو ہوکر چل بسے ،مگر گھر والوں کے لیے مزید ایک کڑا امتحان چھوڑ گئے۔ رفیق بھائی کے خوشحال گھرانے کو شاید کسی کی نظر لگی تھی کہ ایک دن اچانک دل میں تکلیف ہوئی ،اسپتال گئے چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ ہارٹ اٹیک ہوا ہے ،گھرمیں جو جمع پونجی تھی وہ اس آپریشن پر لگا دی گئی، دو بیٹیاں اورایک بیمار بیٹا اس وقت صبرکا مجسمہ بنے بیٹھے تھے،یہ لوگ اورکر بھی کیا سکتے تھے ۔
رفیق بھائی کے آپریشن کے بعد جیسے ان کے گھرانے میں بیماری نے ڈیرے ہی ڈال دیے ،بائی پاس کے چند دنوں بعد رفیق بھائی کو فالج نے آ گھیرا اور یہ فالج آخری وقت تک ان کے ساتھ رہا۔ رفیق بھائی15سال اپنی بیماری سے لڑتے رہے اور ایک چارپائی پر ہی 15 برس کا عرصہ گزارا، اس دوران رفیق بھائی نے اپنے 7 سالہ بیٹے کو کھلانے اورباہر گھومانے کی حسرت بھی کی ہوگی ، مگر بیماری نے ان کو اتنی مہلت ہی نہ دی ۔ 15سال ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھی چارپائی پر گزرگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بیٹا جوانی کی دہلیز پر پہنچ گیا، مگر یہ کیا، بیٹا آج بھی اتنا ہی رہ گیا جتنا رفیق بھائی کی بیماری سے پہلے تھا، بیٹے سے بات کرنے کا بھی دل کرتا ہوگا،مگر فالج نے ان سے زبان بھی چھین لی تھی ، اور وہ پیار سے بیٹے کو اپنے پاس بلانے سے بھی قاصر تھا۔
رفیق بھائی نے کئی خواب سجائے ہوں گے کہ بیٹا جوان ہوگا تو میرا بازو اورگھر کا سہارا بنے گا،مگر رب کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، بیٹا جسے بازو بننا تھا وہ بھی شدید علیل ہوگیا، عمر 22 برس ہونے کے باوجود قد ڈھائی فٹ سے زیادہ نہ بڑھ سکا، اور یہ ہی وجہ تھی کہ اسے کہیں روزگار بھی نہ مل سکا، بیٹا یہ سوچ سوچ کر بیمار ہوگیا کہ گھرکیسے چلائوں ، ماں یہ سوچ کر بیمار ہوگئیں کہ اب کیا ہوگا، بیٹیوں کی شادی کرنی ہے ، اور بیٹیاں یہ سوچ سوچ کر بوڑھی ہونے لگیں کہ اب آگے کیا ہوگا اورگھر کی حالت یہ تھی کہ ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ۔ ان حالات میں کوئی بھی شخص پاگل ہوسکتا ہے۔ مگر اس بیوہ نے اس وقت بھی صبر سے کام لیا اورآج بھی صبر کا مجسمہ بنی بیٹھی ہیں۔
ایسا نہیں تھا کہ بیٹیوں نے گھرکاسہارا بننے کا نہ سوچا ہو، وہ گھر سے باہر بھی نکلیں اورکمانے بھی لگیں ،مگر اس معاشرے میں پھیلی بے حیائی کے آگے وہ جیت نہ سکیں اورشکست کھا کر ایک ماہ میں ہی گھر بیٹھنے میں عافیت جانی، یہ سوچ کر کہ نہ بھائی اس قابل ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرسکتا ہے اور نہ باپ چل پھر سکتا ہے جو ہمیں آنکھوں سے اوجھل ہونے دے۔ ماں کوجب مردوں کے معاشرے کا معلوم ہوا تو اس نے بیٹیوں کو یہ سوچ کر گھرمیں ہی رکھنے کا اٹل فیصلہ کرلیا کہ عزت ہے تو سب کچھ ہے ۔ اس فیصلے کے بعد اس گھرمیں کبھی ایک وقت کا کھانا بنتا تو کبھی دو دون فاقوں پر گزرجاتے، محلے والوں نے بھی دینا بند کردیا کیوں کہ وہ بھی اتنے رئیس نہ تھے کہ اپنے بچوں کا پیٹ پالتے یا ان کا گھربھی دیکھتے، خدا بھلا کرے ساتھ میں کچن والے کا جس نے ہر آرڈر پر اس گھرمیں کھانا فراہم کیا،جب کوئی آرڈر نہ ہوتا تو وہ بھی مجبور ہوجاتااور اس دن نذیر بھائی کے گھر پھر سے فاقہ ہوتا۔
اس کے گھر کے حالات تحریک انصاف کے مقامی ایم پی اے کو بتائے گئے تھے جس پر انہوں نے اس فیملی کی مدد کرنے کا بھی وعدہ کیا،مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوسکے۔ کئی لوگوں سے ہم نے درخواستیں کیں کہ خدارا اس گھر کی طرف توجہ دیں ، یہاں غربت نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، مگر مجال ہے کہ اب تک کسی کے کان پر کوئی جوں تک رینگی ہو۔ بیوہ کے مطابق میرے شوہر نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے اور نہ مجھے اس کی اجازت دی کہ میں کسی کے آگے جاکر ہاتھ پھیلائوں۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ اسپتال جاسکتے۔ میرے شوہرگزشتہ 15 سالوں سے بستر پر رہے ، مگر ایک گولی تک کے پیسے نہ تھے کہ وہ کھاسکتے، بیٹا بھی کئی سالوں سے بیمار ہے جس کا سول اسپتال سے علاج چل رہا تھا مگر اب سال سے زیادہ ہوچکا ہے اسپتال نہیں جاسکے۔
یہ غربت اوربے بسی کی انتہا تھی کہ جہاں انہیں خودکشی کرلینی چاہیے تھی وہاں وہ بھوکے دو دو، تین تین دن فاقوں میں گزارتے رہے ہیں ،یہ سوچ کر کہ شاید کوئی مدد کرنے آئے گا، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔لاک ڈاؤن کے دوران وزیراعظم کی جانب سے عوامی پیسے کی بندر بانٹ کی گئی اپوزیشن میں بیٹھے احسن اقبال جیسے شخص کو پیسے لینے کا مسیج آتا ہے مگر اس غریب کے لوگ انتظار میں رہے ۔ ان کے لیے تو بیت المال کے دروازے تک بند ہیں اور بند ہی رہیں گے، کیوں کہ اس ملک میں غریب ہونا ایک بہت بڑا جرم ہے اور یہ جرم یہ لوگ کر بیٹھے تھے۔ اس گھرانے کو غریب ہونے کی بہت بڑی سزا ملی اور مل رہی ہے۔ کئی لو گوں نے ہمدردی کے تحت مختلف اداروں میں درخواستیں بھی دیں کہ شاید کچھ بھلا ہوجائے مگر سرکاری اداروں اور اسمبلی میں بیٹھے فرعونوں نے ان کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری کا حصہ بنانے میں ایک منٹ نہیں لگایا۔
رفیق بھائی چل بسے ، اب اس گھر پر مزید کیا گزرے گی ، یہ سوچنا حکومت اور حکمران کا کام نہیں۔ ان کا کام تو صرف عوام کی خدمت کرنا ہے اور وہ یہ خدمت کررہے ہیں اور جس عوام کی یہ لوگ خدمت کررہے ہیں یہ 22 کروڑ عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم رو زانہ ترقی کی بات کرتے ہیں ،معیشت کی بہتری کی بات کرتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم کسی کو پائوں تلے روندھ کر کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ جو اہداف ہم نے دو سال میں حاصل کرنے ہیں وہ ہم دوسو سال میں حاصل نہیں کرسکتے۔ جب تک ان کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کیاجاتا ترقی ایک خواب ہی بن کر رہے گی۔
حکمران کہتے ہیں کہ ملک ترقی کی جانب جا رہا ہے ،معیشت بہتر ہورہی ہے، بجٹ غریب دوست بنایا ہے، غریبوں کے لیے فلاں فلاں اسکیمیں نکالی ہیں جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ رفیق بھائی اوران کی فیملی کے لیے نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ غربت کی انتہا پر پہنچ چکے تھے ، اس لیے نہ بجٹ میں ان کا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی کسی سرکاری اسکیم میں یہ حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی بیت المال پر ان کا یہ ان کے گھرانے کا کوئی حق بنتا ہے۔ اس ملک میں ایک اصول ازل سے چلا آرہاہے۔گرتی دیوار کو ایک دھکا اور دو۔ یقینا ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب عوام یہ نعرہ ان حکمرانوں کے لیے لگائے گی ۔ تاہم ابھی یہ مناظر دیکھنے کے لیے نہ جانے پاکستان کو کتنے برس بیت جائیں۔