آج سے تین ماہ قبل کی دنیا یکسر مختلف تھی۔ کرونا وائرس نے محض چند دنوں کی مختصر مدت میں دنیا کی سیاست، معیشت ، ابلاغ حتی کہ معاشرت تک کو ہلا ڈالا ہے۔ خوف کی اس فضا میں یہ سوال شد ومد کے ساتھ سر اٹھانے لگا ہے کہ کیا دنیا کا جغرافیہ بھی اس وائرس سے تبدیل ہونے کے در پہ ہے؟؟؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت بتائے گا مگر موجودہ صورتحال میں یوں لگتا ہے گویا سائنس اور ٹیکنالوجی کے زعم میں مبتلا اکیسویں صدی کے انسان کو اس چھوٹے سے جرثومے نے خاک چٹا دی ہے اور اس کو خدا اور مذہب کی یاد آ گئی ہے۔
اب تک کی عالمی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اکیسویں صدی کا انسان آج اپنی تمام تر سائنس، ٹیکنالوجی اور تسخیر کائنات کے بلند و بانگ دعووں سمیت ایک نہ نظر آنے والے جرثومے کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے۔
ایک طرف اٹلی کے وزیر اعظم کا یہ بیان ہمارے سامنے ہے کہ “ہم اپنی ساری ٹیکنالوجی آزما چکے، اب صرف خدا سے رحم کی اپیل کرتے ہیں” دوسری طرف اسرائیل کے وزیر صحت کا یہ جملہ ششدر کر دینے کے لیئے کافی ہے کہ ” اب صرف مسیح موعود ہی ہمیں اس وائرس سے نجات دلا سکتا ہے” حال ہی میں پوپ فرانسس نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارےکو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ نہیں معلوم کہ کورونا وائرس ’’قدرت‘‘ کا غصہ ہے یا نہیں مگر حالات سے لگتا ہے کہ “قدرت کا ردعمل” ہے۔ کیوں کہ ہم انسانوں نے اس دنیا کا ماحول برباد کردیا ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 9 اپریل 2020ء)۔
کیسی عجیب بے بسی کی کیفیت ہے؟ کہاں وہ انسان جویہ دعوے کرتا تھا کہ” ہم اگلے ١٠٠ سالوں میں موت پر قابو پا لیں گے اور اس کے بعد انسان امر ہو جائے گا۔” آج وہی انسان مجبوری اور لاچاری کی تصویر بن کر آنے والے وقت کے حوالے سے اندیشوں اور وسوسوں کا شکار ہے۔
دنیا بھر کی معیشتیں تباہی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹس کریش ہونے کے قریب ہیں۔ کاروباری افراد پریشان ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو چکیں ۔بلوم برگ کا تخمینہ ہے کہ” اس وبا کے ختم ہونے تک دنیا کو معاشی طور پر دو اعشاریہ سات کھرب امریکی ڈالر کے مساوی نقصان ہو چکا ہوگا”۔ (VOA21apr) تاحال بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
وہ حکومتیں جو اپنے بجٹ کا کثیر حصہ دفاع اور اسلحہ سازی پر مختص کرتی تھیں ، آج ان کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے کیونکہ یہی بجٹ صحت اور تحقیق پر خرچ ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔ اس سلسلے میں امریکہ جیسے ملک کی مثال ہی کافی ہے۔امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہےجس کا جنگی بجٹ 700 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے پاس 6 ہزار ایٹم بم ہیں۔ دنیا بھر میں اس کے 500 فوجی اڈے ہیں۔
مگر امریکہ کےریاستی صحت کے اداروں کا حال ملاحظہ کیا جائے توپتہ چلتا ہےکہ امریکہ کے 2 کروڑ 70 لاکھ شہریوں کا کورونا ٹیسٹ ممکن ہی نہیں ہے۔۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق میں وبا شروع ہونے سے قبل محض ایک لاکھ 68 ہزار 900 وینٹی لیٹر تھے، جبکہ امریکہ کو 7 لاکھ 40 ہزار وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی۔
امریکہ میں ایک ہزار افراد کے لیے اسپتال کے صرف 2.4 بستر دستیاب ہیں۔(یہ وہی امریکہ ہے جو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں ہزاوروں ارب ڈالرز پھونک چکا ہے)۔ اٹلی میں دستیاب بستروں کی تعداد فی ہزار 3.2 ہے۔ برطانیہ جنگی بجٹ پر سالانہ 40 ارب پائونڈ خرچ کرتا ہے، اس کا ’’حال‘‘ یہ ہے کہ اسے 20 ہزار وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے، جبکہ برطانیہ میں 5 ہزار وینٹی لیٹر ہیں۔ (دی نیوز، 24 مارچ 2020ء)۔
دوسری طرف ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے بچاوْکی ویکسین کی صرف تیاری کا عمل کم از کم 6 ماہ کا عرصہ مانگتا ہے جبکہ تاحال اس کی ویکسین دریافت تک نہیں ہو سکی ہے۔ مستقبل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔
ابھی تک اس بحران سے نمٹنے کے لیئے صرف سماجی فاصلے اور لاک ڈاون ہی ایک حل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ لیکن یہ حل دوسری طرف ایک اور بحران کو جنم دے رہا ہے ۔ بیروزگاری، بھوک اور ڈپریشن کا بحران ،جسکی سنگینی میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ عالمی خیراتی ادارے آکسفیم نے خبردار کیا ہے کہ” کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات عالمی غربت میں تقریباً نصف ارب تک کا اضافہ کر سکتے ہیں۔آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے آکسفیم نے کہا کہ یہ 30 سال میں پہلی مرتبہ ہوگا جب عالمی سطح پر غربت میں اضافہ ہوگا” (VOA 21 APR)
کچھ دن مزید یہی صورتحال رہی تو نقصانات کا تخمینہ لگانا نا ممکن ہو جائے گا۔ آئن بروما، جو مشہور امریکی کالم نگار ہیں ، امریکہ کے ممتاز اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ:۔ ’’ وہائٹ ہائوس میں ڈارون کی پیروی کرتے ہوئے اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں کہ امریکی معیشت کی خاطر موجودہ بحران میں ہمیں اپنے بوڑھوں اور اپنے بیماروں کی قربانی دے دینی چاہیے۔
اس کی بدترین صورت یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کو بے ہودہ اور بیمار کہہ کر یکسر مسترد کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں‘‘۔ (نیویارک ٹائمز۔ 28 مارچ 2020ء)۔ نیو یارک ٹائمز کے اس مضمون سے صورتحال کی سنگینی اور شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
آج کا انسان کھلم کھلا اپنی شکست کا اظہار کر رہا ہے۔موجودہ حالات ہمیں انسان کے فانی ہونے اور دنیا کی بے ثباتی کا شدت سے احساس دلا رہے ہیں ۔ ضرورت اسی بات کی ہے کہ اس خالق کائنات کے آگے خود کو سرینڈر کر دیا جائے، جس نے چودہ سو سال قبل بھی انسان کو اس طرح مخاطب کیا تھا:انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھےپیدا کیا پھر نک سک سے درست کیااور تجھے متناسب بنایا اور جس شکل میں چاہا تجھے جوڑ کر بنا دیا۔ہر گز نہیں(بلکہ اصل بات یہ ہے کہ) تم روز جزا کو جھٹلاتے ہو۔” ( الانفطار ٦-٩)
موجودہ حالات و واقعات اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ایک نئی دنیا کا ظہور بہت قریب ہے۔ بے شک میرےرب کی حکمت بہت بلند ہے جو ہر شر سے خیر نکالتا ہے۔