حقوق سے لاعلمی

حق کیلیے لڑنا جہاد ہے اور ویسے بھی دوسروں کے کندھوں پر بس جنازے جایا کرتے ہیں لیکن فکر انگیز بات یہ ہے کہ ہمیں جب اپنے حقوق کا علم ہی نہیں ہوگا تو کیسی حقوق کی جنگ اور کیسا حق  کے لیے جہاد۔ ایک سرکاری ہسپتال میں ایک بوڑھے بابا جی کو شکایات بکس میں دس روپے کا نوٹ ڈالتے دیکھا تو میں نے بابا جی سے نوٹ ڈالنے کی وجہ پوچھی کہنے لگے “پتر چندہ دتا اےکسے غریب دےکامآوے گا”

دراصل اس میں بابا جی کا کوئی قصور نہیں تھا کیونکہ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں حقوق سے   آگاہی کوئی اہمیت کی حامل نہیں ہے ۔ہم دوستوں کی محافل،شادی کی تقریبات یا چائے کے ڈھابوں پر بیٹھ کر قانون کے عمل درآمد نہ ہونے کا رونا رونے کو فرض عین اور ایک دوسرے کو حقوق سے آگاہ کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے حقوق کیا ہیں؟ ہمیں بنیادی حقوق کا علم ہو تو زیادہ تر دیہات میں بل ڈسٹری بیوٹر گھر گھر بل تقسیمکرنے کی بجائے مساجد میں بل رکھ کر نہ جائے۔

اگر ہمیں حقوق کا علم ہو تو واپڈا کے ملازم بل ادا نہ کرنے پر کنکشن کاٹتے وقت بجلی کے  میٹر کو ساتھ نہ لے جائیں کیونکہ وہ تو کنزیومر کی ملکیت ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کنزیومر کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے۔ اگر ہمیں حقوق کا علم ہو تو ایس ایچ او صاحب ایف- آئی -آر کاٹنے سے انکار نہ کریں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ بصورت انکارسائلین”اندراج مقدمہ ضابطہ فوجداری”  کے تحت سیشن جج کے پاس پیش ہو سکتے ہیں جہاں انصاف سے بڑا کوئی تھانے دار نہیں ہے۔ اگر ہمیں علم ہو کہ پولیس نامزد  شخص کے علاوہ کسی کو گرفتار نہیں کرسکتی تو کسی بھائی ،باپ ،بیٹے یا کسی ماں بہن کی حرمت پامال نہ ہو۔

اگر ہمیں حقوق کا علم ہو تو ہمارے  سرکاری ملازمین بینکوں میں پینشن یا تنخواہ  لینے کے عوض بنک سٹاف کی جھڑکیاں نہ سنیں اور  انگریزی پتلون پہنے ملازمین جو انکی خدمت کے لیے وہاں بٹھائے گئے ان پر رعب نہ جمائیں۔سچ پوچھیے  اگر تو ہم نے محض حقوق نہ ملنے کا رونا ہی رونا ہے اور سرکاری دفاتر میں لگے شکایات بکس خالی سجاوٹ کے لیے پڑے رہنے ہیں تو پھر وہ باباجی ہم سے کہیں بہتر ہیں ۔کیونکہ وہ اس بکس کو  کسی کام تو لا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے عقل سے نوازکر ذمہ داری سونپی ہے۔ آپ  جن  حقوق سے واقف ہیں یا آگاہ ہیں ان کو دوسروں تک بھی پہنچائیں اور اصلاح معاشرہ کے مجاہد بن جائیں۔

                                  “ہر شخص سر پر کفن باندھ کر نکلے    حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی”

جواب چھوڑ دیں