اس فصل میں جو بھیجئے ،بس آم بھیجئے 

قدرت الٰہی کے تخلیق کردہ پھلوں میں اگر بات آم کی کی جائے تو اس کی لذت کے کیا کہنے ۔ مرد ہوں یا عورتیں بچے ہوں یا بزرگ، شاعر ہوں یا ادبی شخصیات آم ہر ایک کا پسندیدہ ترین پھل ہے، اور موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہر ایک کو اس لذیذ پھل کا شدت سے انتظار ہوتا ہے۔ آم برصغیر پاک و ہند کا قومی پھل ہے، اسی باعث اسے پاکستان و بھارت میں پھلوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے، اورلوگ اس کے میٹھے ذائقے اور نرالی خوشبو پر جان چھڑکتے ہیں۔ شعراء و ادباء کی بے حد پسندیدگی کے باعث آم کو اردو ادب میں بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔ اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر، امیرخسرو نے آم کو ’’فخرگلستاں‘‘ کا خطاب دیا تھا۔

ایک بارآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر باغ کی سیر فرما رہے تھے مرزا غالب بھی ان کے ہمراہ تھے، جو پر تجسس نظروں سے آم کے درختوں کو دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ نے پوچھا ’’مرزا صاحب! آپ درختوں کو اتنی گہری نظروں سے کیوں دیکھ رہے ہیں؟‘‘ جس پر مرزا صاحب گویا ہوئے ’’میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو شے جسے ملنی ہو، اس کے دانے دانے پر اسی کے نام کی مہر لگی ہوتی ہے ، میں دیکھ رہا ہوں کہ کسی پر میرے نام کی مہر بھی لگی ہے یانہیں‘‘ یہ سن کر بہادرشاہ ظفرمسکرائے اور مرزا صاحب کامطلب سمجھ گئے،انہوں نے آموں کی ایک ٹوکری مرزا صاحب کو بطور تحفہ بھجوائی۔اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا غالب کوآم سے کتنی ر غبت تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیسویں صدی میں اردو کے عظیم ترین شاعر علامہ اقبالؒ بھی آموں کے بے حد شوقین تھے۔نوجوانی میں آپ کا دستور تھا کہ آموں کی دعوتوں میں شریک ہوتے۔ ان دعوتوں میں اہل لاہور سیروں آم کھا جاتے تھے۔ مرزا غالب کے بقول آم میں دو خصوصیات ہونی چاہئیں’’اوّل وہ میٹھے ہوں،دوم بہ کثرت ہوں‘‘۔

آم طبی لحاظ سے بھی بڑا مفید پھل ہے۔ مالٹے کی طرح یہ بھی وٹامن سی کا خزانہ رکھتا ہے۔ صرف ایک پیالی آم کھانے سے وٹامن سی کی سو فیصد ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ وٹامن سی ہمارا مامون نظام مضبوط کرتا اور ہمیں امراض سے بچاتا ہے۔ ایک پیالی آم میںتقریباً پچاس ملی گرام وٹامن سی ملتا ہے۔ آم میں ایک اور اہم وٹامن اے بھی ہے۔ ایک پیالی آم ہماری روزانہ کی ’’35فیصد‘‘ غذائی ضرورت پوری کرتا ہے۔ وٹامن اے بینائی مضبوط کرتا ہے ، نیز وہ جلد کے لیے بھی مفید ہے۔آم میں وٹامن بی، وٹامن ای، وٹامن کے، تھیامین، ربوفلاوین، نائنین اور فولیٹ بھی ملتے ہیں۔ یہ سبھی انسانی تندرستی کے لیے بہت ضروری ہیں۔معدنیات میں سب سے زیادہ تانباآم میں ملتا ہے۔

اس کے بعد پوٹاشیم، میگنیشم، کیلشیم‘ مینگنیز اور فولاد کا نمبر ہے۔ یہ سبھی معدنیات اپنے اپنے طور پر انسان کو تندرست و توانارکھتے ہیں۔ ماہرین طب کے مطابق آم کھانے سے خون بڑھتا ہے ،چنانچہ خون کی کمی کے مریض اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔آم کی تاثیر گرم ہے اس لیے آم کھانے کے بعد دودھ کی لسی پینا مناسب ہے۔اطبا ء کی رو سے آم دل، دماغ، پھیپھڑوں، معدے ،آنتوں، گردے، مثانے، دانت اورآنکھوں کو طاقت دیتا ہے۔ قبض کشا اور پیشاب آورہے۔ حاملہ خواتین کے لیے طاقت بخش غذا ہے۔

یہ واحد پھل ہے جو اپنی افزائش کے ہر مرحلے پر قابل استعمال ہے۔ ورنہ بیشتر پھل صرف پکنے ہی پر کھائے جاتے ہیں۔کچے آم کا اچار بہت لذیذ ہوتا ہے۔ آم کی کئی اقسام ہیں جن کی تعداد 450تک پہنچتی ہے ، جن میں مشہور اقسام دیسی، چونسہ، دسہری، فجری ، لنگڑا، سہارنی، سندھڑی اور انور رٹول مشہور ہیں۔ ملتان کا چونسہ آم پچھلے دس پندرہ برس کے دوران نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقبول ترین آم بن چکا ہے، یہ جسامت میں بڑا مگر نہایت شیریں گودا، اور اپنی مخصوص خوشبو رکھتا ہے۔ جبکہ لنگڑا آم بھی خاصہ مشہور ہے جس کی وضع قطع لنگڑے جیسی ہے، اس آم کے باغات ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور میرپور خاص میں ہیں، یہ بھی میٹھا اور اور خوشبودار گودا رکھتا ہے۔ لنگڑاآم علامہ اقبال کوبہت مرغوب تھا۔ ایک بار مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی نے علامہ اقبال کو لنگڑے آموں کا تحفہ بذریعہ ڈاک بھجوایا، علامہ اقبال نے پارسل کی رسید پر یہ یادگارمصرع لکھ بھیجا: ؎ اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ الٰہ آباد سے لنگڑا چلا، لاہور تک پہنچا

چونکہ سندھ میں گرمیوں کا آغاز پہلے ہوتا ہے اس لیے سندھ کے سندھڑی آم کی فصل پہلے تیار ہوکر مارکیٹ میں آجاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ آم کی اس قسم کی کاشت سب سے پہلے مرحوم وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے خاندان والوں نے کی تھی،یہ آم بھی بڑا میٹھا اور رسیلا ہوتا ہے اور اس کی پیداوار کثیر تعداد میں ہوتی ہے۔چونکہ یہ قسم آموں میں سب سے پہلے آتی ہے اس لیے حکومت پاکستان اکثر سندھڑی آم ہی بیرونی ممالک کے سربراہوں کوبطور تحفہ بھجواتی رہی ہے۔ اس رسیلے پھل کی چالیس فیصد پیداوار بھارت میں ہوتی ہے۔ اس کے بعد چین، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور پاکستان کا نمبرآتا ہے۔ وطن عزیز میں کسی سیزن یہ پھل کثیر تعداد میں ہوتا ہے تو اتنا سستا ہوتا ہے کہ عام آدمی بھی خرید سکے جبکہ کبھی کبھی غریبوں کی پہنچ سے دور بھی ہوجاتا ہے، اعلیٰ اقسام اور کوالٹی کا آم ذیادہ تر ایکسپورٹ کیاجاتا ہے، تاہم اس سال کرونا وائرس کی وجہ سے آم کی فصل کو برآمد کرنا ممکن نہیں۔

آم کی فصل کی تیاری کے ساتھ ہی آندھیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے جن کے باعث بہت سے آم درختوں سے جھڑ کر ضائع ہوجاتے ہیں۔ آم کے سیزن میںآم سے لدے درخت اور دکانوں پر رنگین ٹوکریوں میں سجے آم دیکھ کر آم کی لذت منہ میں کھولنے لگتی ہے۔ بلاشبہ ہمارے لئے تخلیق کی گئیں یہ نعمتیں قدرت کا عظیم ترین تحفہ ہیں۔ مشہور ادبی شخصیات اور شاعروں ہی کی طرح اکبرالٰہ آبادی کو بھی آموں سے بڑا عشق تھا اور آموں میں بھی لکھنو کے سفیدے، اور ملیح آباد کے دسہری سب سے زیادہ مرغوب تھے۔ اپنے بے تکلف دوست منشی نثار حسین کو لکھتے ہیں: ؎

                                            نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے

                                           اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے

                                           ایسا ضرور ہو کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں

                                           پختہ اگر بیس تو دس خام بھیجئے

جواب چھوڑ دیں