پاکستان میں تقریباً تمام ہی کاروبار بلیک میلنگ اور نوسر بازوں کی نظر سے آزاد نہیں۔کاروبار ہوں یا پیشہ ور ادارے، جب اس میں دیا نتدار لوگ باقی رہیں تب تک یہ اقرباپروری اور دھوکے سے پاک رہے۔ یو تو ہم کہنے کو مسلمان ملک ہیں مگر ہمارے روز مرہ زندگی کے بیشتر معاملات دھوکے اور فریب سے بھرپور ہیں۔ آئے روز نئے نئے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ جسے دیکھ کر عقل دنک رہ جاتی ہے۔ تر بیت کی کمی اس خطے کے عوام کا مسئلہ رہی ہے۔ سب کچھ حاصل کرنے کی حوص اور نفسا نفسی عوام میں رچ بس گئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہم سے اس لیے بھی آگے ہیں کیونکہ ان کی تعلیم کا بنیادی مقصد اخلاقی اقدار کی عظمت ہے۔ وہاں پیسے کمانے سے زیادہ اعلیٰ اخلاق بنانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حکمران عوام دوست اور درد دل رکھنے والے ہوتے ہیں۔
پیشے کے لحاظ سے میں ایک صحافی ہوں۔ دوران تعلیم ہی ہمیں اساتذہ نے بتایا کہ ہماری صحافتی برادری کا ستر فیصد حصّہ ان پر مشتمل ہے جو صحافت کی’ ص ‘ سے بھی نا واقف ہے۔ بس سفارش کلچر اور چور دروازے سے اس شعبے کا حصہ ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام میں اس کا انتہائی مربوط نظام موجود ہے۔ سخت قانون سازی ہونے کی وجہ سے دو نمبر صحافیوں کا پردہ چاک ہے۔ پاکستان کو اس طرح کا نظام لانے کے لیے موجودہ قوانین کی شکل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت سے امید کی جاسکتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات انتہائی قابل اور شفاف نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ اس مسئلہ کا ان کے پاس کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوگا۔ اس حوالے سے ان کو ایک پالیسی ترتیب کرنا ہوگی۔ ظاہر ہے اس کے نفاذ میں وقت لگے گا مگر پہلا قدم ہی ہے جو مشکل ہوتا ہے۔ صحافی یونینز کو ایک نظام کے تحت لانا ہوگا۔
ملک بھر میں جو صحافتی تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں ان کو اپنے اندر موجود ایسے لوگوں کو نکالنا ہوگا جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے قاعدے اور قوانین بنانے ہونگے جو جدید خطوط پر استوار ہوں۔ امریکہ میں اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔ ہمیں ان کے تجربے سے فائیدہ اٹھانا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم نے پبلک ریلیشنز کے اصول مرتب کئے۔ میں کچھ اداروں کے لئے تعلقاتِ عامہ سے متعلق زمہ داریاں ادا کر چکا ہوں۔ لہذا اس فن کے بارے میں علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب پاکستان میں اس حوالے سے اصول اور قواعد طے کرنے کا وقت آیا تو امریکن سوسائٹی آف پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹروں نے 1959 میں ضابطہ اخلاق ہی معمولی ردوبدل کے بعد ترتیب دیا گیا۔ آج یہ اصول اس پیشے سے وابستہ لوگوں کےلئے مشعلِ راہ ہیں۔ پاکستان میں آج یہی اصول طے ہیں۔
مزہبی پس منظر میں دیکھا جائے تو صحافت ایک معتبر پیشہ ہے۔ جسے پورا کرنا بھاری ذمہ داری کا کام ہے۔ صحافی قوم کی آنکھیں بھی ہیں اور کان بھی۔ اس لئے ضروری ہے کہ قابل، سچے اور اچھی شہرت والے لوگ سامنے آنے چاہئیں۔ اس حوالے سے مناسب تعلیم اور بنیادی اصول سے عاری لوگوں کو نکالنا ہوگا۔
میں منتظر ہوں کہ صاحب اختیار لوگ اس حوالے سے مناسب قانون سازی کریں۔