میں کالج روڈ بھکر کی سٹرک پر جارہا تھا۔ جب دائیں طرف دیکھا تو ایک پرانی کتابوں کی ایک نئی دکان پر نظر پڑی کتابیں پڑھنے کا مجھے بچپن سے شوق تھا جیسے ہی میں روڈ کراس کرکے اندر داخل ہوا وہ دکاندار میرا دوست نکلا۔ میں چاروں طرف اپنی نظروں کو گھما رہا تھا اور میں اپنے من کی دنیا کو تسکین دینے کیلئے کتاب تلاش کررہا تھا۔ کچھ کتابیں الماری میں سجی ہوئی تھیں اور کچھ باہر پڑی ہوئی جیسے ہی میری نظر نیچے پڑی ہوئی کتابوں پر پڑی ایک سیاہ رنگ کا سرِ ورق اور ٹائٹل پر نظر جمی تو جمی رہ گئی۔ ’’اخوت کا سفر‘‘ بلوکلر اُردو نستلیق میں لکھا ہوا تھا۔ نیچے مصنف کا نام اسی خط میں ڈاکٹر امجد ثاقبؔ تحریر تھا۔
میں نے فوراً کتاب اُٹھائی اور سرسری ورق گردانی کرنے لگا۔ عجیب اور اچھوتے انداز پُرمنفرد عنوانات پڑھ کر دِل ودماغ نے فوراً کتاب خریدنے کی آرزو نے کروٹ لی۔ بھائی کتاب کی قیمت کیا ہے؟ اس میں تو مبلغ700/-روپے لکھے ہوئے ہیں۔ دکاندار نے بڑی شفقت اور عقیدت سے کہا کہ اُستاد جی آپ مطالعہ کریں اور پھر قیمت دے دینا۔ دل نے سوچا چل مفت میں کتاب پڑھنے کو مل رہی ہے۔ مفت کی شراب قاضی پر حلال کے مصداق اپنی اکیڈمی پر آیا۔
جیسے ہی ڈاکٹر امجد ثاقبؔ صاحب کا پہلا قدم پڑھا۔ قدم لڑکھڑاتے گئے اور میں اخوت کے سفر میں غوطہ زن ہوتاگیا۔ مجھے فیض احمد فیض کی غزل کا ایک شعر یاد آرہا تھا اور میں ’’اخوت‘‘ کے کمانڈر ڈاکٹر امجدثاقبؔ کی نظر کرتا ہوں۔
میری جھولی میں جتنے بھی وفا کے پھول ہیں اِن کو
اکٹھے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں
چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں
ضرورت کے مطابق سہارے بانٹ لیتے ہیں
میں ایک پسماندہ ضلع بھکر کا رہنا والا ہوں۔ یہاں کی اکثریت غریب لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہاں بھی غربت کی لکیر بہت گہری ہے۔ یہاں بھی مفلس اور نادار لوگ روزانہ امید ویاس کے گھروندے تعمیرکرتے ہیں اور ہوا کے جھونکے اُن کو مٹا دیتے ہیں۔ یہاں بھی ناصرحسین درزی رہتا ہے اور اپنی دومعصوم پُھول جیسی بچیوں کو ہرماہ خون لینے کی بھیک مانگتا ہے کیونکہ اُس کی بچیاں تھلسیمیا کے خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔
آج ُس کے فون نے مجھے تڑپا کے رکھ دیا۔ بھائی جان کرونا وائرس کی وجہ سے ٹیلرنگ کی دکان 14دن سے بند ہے۔ گھر میں آٹا نہیں ہے۔ ڈاکٹر امجدثاقبؔ نے بھی ایسے ہی معاشرے میں گِرے پڑے لوگوں کو اخوت کا سہارا دیا ہے۔ میں سلام پیش کرتا ہوں امجد ثاقبؔ کو کہ اُس نے ’’اخوت‘‘ کا نعرہ لگا کر سرمایہ دارانہ نظام کے لوگوں کو للکارہ ہے کہ آئو تم لوگوں کو سود کے جال میں پھنسا کر اللہ اور اُس کے رسولؐ سے جنگ کرواتے ہو۔۔۔۔اور میں نے اخوت کی اذان دی بلا سود قرض حسن دیکر اُن کو سہارا دیا۔
صرف چھوٹی سی رقم دس ہزار اور اس کی واپسی 100فیصد ہے۔ آج نیل کے ساحل سے لیکر ’’تابخاکِ کاشغر‘‘ ڈاکٹرامجدثاقبؔ کی اذان گونج رہی ہے۔ سودی سسٹم سے منسلک لوگ حیران وپریشان ہیں۔ سودی نظام نے کئی ملکوں کی معیشت کو تباہ وبرباد کردیا ہے ، پیسہ چند ہاتھوں میں گردش کررہا ہے۔ زندگی کی آسائش کے مزے بھی یہی لوگ لوٹ رہے ہیں کیوں۔۔۔۔؟
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو کبھی معاف
’’اخوت‘‘ ایک ایسا ادارہ ہے جو اکائی کی بنیادپر سہارا دیکر لوگوں کی عزت ِ نفس مجروح ہونے سے بچاتا ہے اور لوگ بھیک کی صورت میں ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ڈاکٹر امجد ثاقبؔ کو یہ کامیابی کیسے ملی جو آج یہ ادارہ اخوت کی صورت میں اربوں روپے سسکتی اور بلکتی غربت وافلاس کے گہرے سمندر میں ڈوبتی نائو کو سہارا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اخلاص ہے۔ جب کسی بنجر یا کھیتی میں اخلاص وہمدردی کاپانی ڈالا جائے تو وہ کھیتی سرسبزوشاداب ہوتی ہے۔ آج بڑے بڑے بنکرز اور فلاحی اداروں والے سوال کرتے ہیں کہ بلاسودقرضہ اور ریکوری 100فیصد کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔۔؟
جب جذبے صادق ہوں تو منزلیں قدم چومتی ہیں۔ ’’اخوت‘‘ نام ہی پیار کا ہے اور جب اس کا انتظام وانصرام مسجد میں ہوگا۔ مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے جہاں پر پاک وصاف اور وضو کی حالت میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ ڈاکٹرامجدثاقبؔ کو میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے کم عرصہ میں کامیاب وکامران کے جھنڈے گاڑھ دیئے۔ اس کامیابی کے پیچھے یقینا اُن بے سہارا، غربت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ آج میرے پاکستان کے اس سپوت نے ثابت کردیا ہے کہ سود کے بغیر بھی لوگوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔
سمندر کے کنارے بیٹھا ایک شخص سمندری لہر سے کنارے پر پڑی ہزاروں مچھلیاں جو تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے رہی تھیں۔ وہ شخص آخری سانسوں کے سہارے زندہ بچ جانے والی مچھلیوں کو جلدی جلدی سمندر میں پھینک رہا تھا تاکہ یہ اپنے مسکن میں جاکر زندگی کے مزے لوٹیں۔ایک اور شخص آیا اور اُس نے کہا کہ اِن ہزاروں مچھلیوں کی تم کیسے جان بچاسکتے ہو۔۔۔۔۔۔تو اُس شخص نے ’’اخوت‘‘ کا پیغام دیا اور کہا یقینا میں ان تمام مچھلیوں کو نہیں بچاسکتا مگر کنارے پر مرنے والی مچھلیوں کی تعداد میں تو کمی کرسکتا ہوں۔
ڈاکٹر امجدثاقبؔ بھی غربت تو نہیں مٹاسکتے۔ مگر ڈوبنے والے کو تھوڑاسا سہارا مل جائے گا۔ وہ ڈوبنے سے بچ گیا تو زندہ رہنے کی قیمت وہی آدمی بتاسکتا ہے جو موت سے بچ کر اُس کو دوبارہ زندگی مل گئی ہو۔ میں گورنمنٹ آف پاکستان سے گزارش کرتا ہوں کہ ’’اخوت‘‘ کے علمبردار ڈاکٹر امجدثاقبؔ تمغۂ امتیاز اور دوسرے اعزازات سے نوازاجائے۔ ڈاکٹرامجدثاقبؔ کی خدمات کو سراہتے ہوئے اور اخوت کے سفر میں حکومت ترجیحی بنیادوں پر ساتھ دے۔
ڈاکٹرامجدثاقبؔ اس وقت ٹمٹماتے چراغوں میں تیل ڈال رہا ہے۔ میں بھی آج سے اخوت کے سفر میں شامل ہوگیا اور آپ لوگ بھی ایک چائے کی پیالی کی قیمت دیکر اخوت کے ڈونر بن جائیں۔ دوسروں کی خیرخواہی اور ہمدردی انسانیت کی معراج ہے۔ میرا مذہب بھی خدمتِ خلق کا درس دیتا ہے۔ صرف اپنے لئے نہیں دوسروں کیلئے جینا انسانیت کا پہلا سبق ہے۔ جب تم ایسا کرو گے تمہیں قلبی سکون حاصل ہوگا۔
جب اندر کی دنیا میں بہار ہوتی ہے تو سارا جہان پرسکون نظر آتا ہے۔ پھولوں سے خوشبو آتی ہے اور کانٹوں سے ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں۔ جب تم کسی پیاسے کو ایک گھونٹ پانی پلائو گے ۔ پیاسے دل کی ٹھنڈک تم ایسی دعا دے گی جو آسمانوں کے دوازے کھولتی ہوئی اللہ کے ہاں سربسجود ہوکر التجاء کرے گی کہ اے اللہ اس بندے نے میرے خشک لبوں کو تراوٹ دی تو اُس کی زندگی میں بادۂ صبا کی ہوائیں چلادے۔
ہم سب ’’اخوت‘‘ کی گاڑی میں بیٹھ جائیں جس کا ڈرائیور ڈاکٹرامجدثاقبؔ ہیں دانائوں کا قول ہے دینے والا آسودہ ہوتا ہے اور لینے والا افسردہ رہتا ہے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں