انسانی تہذیب وتمدن کے ارتقا اورمعاشرتی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ معاشرہ کی ہر نسل اپنے تجربات علم، مشاہدہ، عقائد ونظریات کو نسل در نسل اس طرح سے منتقل کرے کہ ہر آنے والی نسل پہلے سے بہتر اور بھرپور اقدار کا حامل بن جائے۔دنیا ان معاشروں کی مثالیں دیتی ہیں اور تاریخ کے اوراق انہیں سنہری الفاظ میں یاد رکھتے ہیں جن کا کل آج سے بہتر ہوتا ہے اور آج سے کل اسی صورت میں ترقی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے اگر تعلیم کا معیار بدلتی روایات اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
معاشرہ افراد کے مجموعے سے جنم پذیر ہوتا ہے اس لئے افراد کی تعلیم وترقی دراصل ان کی شخصیت اور کردار کی بہتری کی ضامن ہوتی ہے۔ مثالی کردار کے متحم افراد ہی اصل میں معاشرتی عمل کو اپنی کارکردگی سے بہتر بناتے ہیں۔ تعلیمی ترقی کے لئے جہاں صحت مند دماغوں کی ضرورت ہوتی ہے وہیں معاشی ضروریات اور بجٹ میں تعلیم کے لئے معاشی تخصیص از حد ضروری ہوتی ہے وگرنہ یہ واحد میدان ہے جہاں بھوکے بٹیر لڑتے نیں اور اگر ضرورت پڑ بھی جائے تو ان کی کارکردگی وہ نہیں ہوتی جو بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ ہوتی ہے۔
امام غزالی کا ہم پہ یہ احسان ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ہمیں بتایا کہ علم دو طرح کا ہوتا ہے اور دوسری اہم بات یہ کہ قوموں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا سالانہ بجٹ تیار کریں،بجٹ سے مراد یہ ہے کہ سالانہ اخراجات اور وصولیوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہے۔اہداف کو مقررہ وقت میں پورا کرنا دراصل بجٹ میں سب سے اہم ہوتا ہے۔پاکستان بھی ہر سال اپنا بجٹ پیش کرتا ہے ۔سالانہ بجٹ 2020-21 عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جس کا کل تخمینہ تقریبا 73کھرب روپے ہے۔
ہمیشہ کی طرح امسال بھی خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا، ہمیشہ کی طرح یہ حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، عوام دوست ہے،عوامی امنگوں اور مجبوریوں کا خیال رکھا گیا ہے،عوام پر کسی قسم کا کائی بوجھ نہیں ڈالا گیا،ملکی معیشت سابقہ حکومت تباہ کر گئی تھی جس کی بنا پر خسارہ کا بجٹ پیش کیا گیا۔سب درست ہے لیکن چند خدشات جو مجھے بطور عوام تنگ کر رہے ہیں کہ اگر نیا ٹیکس نہیں لگایا،مہنگائی کی شرح میں بھی کمی آئی ہے کرونا کے باوجود ہم نے بہتر بجٹ پیش کیا ہے۔ تو پھر مجھے یہ جاننا ہے کہ فی کس آمدنی نام نہاد 1600 ڈالر سے کم کیوں ہو گئی، بجٹ خسارہ 2300ارب سے 4300ارب کیسے ہو گیا، شرح نمو 5.8سے کم کیوں ہو گئی ہے، قرض کی اقساط اتارنے کے لئے نیا قرض کیوں لیا گیا، ترتالیس ہزار ارب کا ملک مقروض کیوں ہو گیا؟
ایسے ہی اور بہت سے سوالات ہیں جو انشا اللہ آنے والے کالمز میں آپ کے سامنے رکھوں گا، لیکن میرا آج کا موضوع ہے کہ اس بجٹ میں حکومت پاکستان نے جو کہ میری دانست میں سب سے تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے انہوں نے تعلیم کی ترقی کے لئے کتنی رقم مختص کی ہے۔ یعنی تقریبا 73 کھرب میں سے کتنا اس ادارے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے جو معاشروں اور افراد کے کردار کا تعین کرتا ہے۔میری طرح آپ بھی یقینا حیران و ششدر رہ جائیں گے کہ صرف چار ارب روپے ایک سال کے لئے محکمہ تعلیم کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اب اس میں اندازہ لگالیں کہ فی کس اسکول کتنی رقم ادا کی جائے گی اور اس سے پیدا ہونے والی قوم اوران کے معماروں کی اخلاقی اور معاشی حالت کیسی ہو گی؟
مجھے یاد ہے کہ ایک سینئر پاکستانی صحافی مہاتیر محمد سے ملنے کے لئے گیا تو اس نے اپنے قیمتی وقت سے صرف پندرہ منٹ اس کے لئے مختص کئے،صحافی کہتا ہے کہ اس پندرہ منٹ میں مہاتیر نے کوئی تین بار اپنی کلائی میں باندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا یونہی چودہ منٹ ہوئے مہاتیر اٹھا اور اپنی گاڑی کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھنے لگا کہ محترم آپ کے پاس ایک منٹ مزید ہے اور مجھے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں ایک منٹ لگے گا لہذا التماس یہ ہے کہ آپ اپنا ایک منٹ میرے ساتھ گاڑی تک صرف کیجئے۔ صحافی کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ سر بس آخری ایک سوال کہ آپ کا ملک ہم سے بعد آزاد ہوا جبکہ تعلیم کے میدان میں آپ ہم سے بہت آگے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ مہاتیر نے گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے جواب دیا کہ میرا ملک کل بجٹ کا پچیس فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ آپ پانچ سے بھی کم۔
74سال گزر گئے ہم ابھی تک تین سے پانچ فیصد سے آگے نہیں بڑھ پائے جبکہ وہ ملک جو ہم سے کہیں بعد میں آزاد ہوئے ہیں ،خان صاحب پوری کے حافظہ میں یہ بات ہے جب آپ اپنی ہر تقریر میں اپنی ایچی سن کی تعلیم کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ وہاں آپ کے ساتھ دوسرے ممالک کے شہزادے تعلیم کے حصول کے لئے آیا کرتے تھے۔اب آپ تو حکومت میں ہیں اور ملک کے بااختیار وزیر اعظم ہیں تو رکاوٹ کس بات کی کریں ہمت،دکھائیں جرات اور تعلیم کے میدان میں زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات اٹھائیں اور دنیا کو بتا دیں کہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب کے آغازکی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
اب پھر سے ہمارے تعلیمی اداروں میں دیگر ممالک کے شہزادے بغرض حصول تعلیم آیا کریں گے۔لیکن تہتر کھرب کے بجٹ میں سے صرف چار ارب روپے تعلیم کے لئے مختص کرنے سے جدید تعلیم اور ترقی یافتی ممالک کے ساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں کیونکہ وہ پنجابی کا ایک اکھان ہے کہ روندی کیوں اے؟تھالی اچ کجھ نئیں۔یعنی جب پلے نئیں دھیلہ تے کردی اے میلہ میلہ۔جب انسان کی جیب بھری ہوئی ہوتی ہے تو پھر کملے بھی سیانے ہو جایا کرتے ہیں ،جب پلیٹ خالی ہو تو پھر سیدھے راستے بھی ٹیڑھے ہو جایا کرتے ہیں۔
بہت سے دیگر اداروں کی اصلاح ،کرپشن کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ مجھ ایسے کئی لوگوں نے تعلیم کے ادارے میں بہتری اور شرح خواندگی میں حقیقی معنوں میں اضافہ وزیر اعظم صاحب سے توقع رکھی ہوئی تھی ۔یہ بھی ہمارا خیال تھا کہ ستر سالوں کی کرپشن کو ہر ادارے سے خان صاحب جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے لیکن تعلیم کے لئے اتنی کم رقم کا مختص کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ بھی تعلیم کے دشمن ہی نکلے۔اگر آپ نے ایسا ہی کرنا تھا تو اس قوم کو خواب کیوں دکھائے،انہیں آگہی کے سراب وعذاب میں کیوں دھکیلا؟یاد رکھئے گا کہ ؎
یہ جو آگہی کا سراب ہے سب سے بڑھ کر عذاب ہے