حقوق دراصل حق کی جمع ہے ، اس کا دائرہ وسیع ہے ۔حق کی جائز اورناجائز حدود پر بحث کی جاسکتی ہے ۔دورِ حاضر کی عدالتی زبان میں حق کے بے جااستعمال کے لیے Misuse of powerکا لفظ ستعمال ہوتا ہے۔یعنی کوئی صاحب اختیار بدنیتی سے اپنے اختیار استعمال کرے۔بالفاظ دیگر اسے Abuseتصور کیا جاتاہے ۔اصول فقہ میں اس کے لیے ’’ استعمال مذموم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے الطرق الحکمیہ میں المضار فی الحقوق یعنی حقوق میں ضرر رسانی کی ٹرم استعمال کی ہے۔سنن ابی دائود کی حدیث میں بے جاحقوق کی وضاحت کچھ اس طرح موجود ہے۔سیدنا سمرہ بن جندب سے مروی ہے کہ ایک انصاری کے باغ میں کھجوروں کے درخت تھے وہ وہاں اپنے بیوی بچوں سمیت رہائش پذیر تھا۔سمرہ جب اپنے درختوں کے پاس جاتے تواسے بڑی کوفت ہوتی انصاری نے چاہا کہ سمرہ اپنے درخت اسے بیچ دے بدلے میں دوسرے درخت لے لے مگر سمرہ راضی نہ ہوا ،رسالت مآب کے پاس یہ قضیہ پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ وہ انہیں انصاری کو فروخت کردے یا بدلے میں درخت وصول کرلے یا پھر ہبہ کردے اوراللہ سے اجر پائے سمرہ نے انکار کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ سے فرمایا’’ انت مضار ‘‘تونقصان پہنچانے والا ہے ۔
پھر آپ نے انصاری کو سمرہ کے درخت اکھاڑ نے کا حکم دیا(ابی دائود ۳۶۳۶) اس حکم نبوی کو اختیار ات کے ناجائز استعمال کی بنیاد سمجھا جاتا ہے ۔اس حدیث کی رو سے سمرہ کا اپنے باغ میں جانا انصاری صحابی پر گراں گزرتا تھا لہذا انصاری صحابی نے سمرہ کے سامنے جائز انداز سے اپنے فیصلے رکھے ،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کے فیصلوں کی توثیق کی سمرہ کے انکار پر بحثیت قاضی آپ نے درخت اکھاڑ پھینکنے کا حکم صادر کیا یعنی قاضی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر سخت سے سخت سزا دے سکتا ہے یہ جائز اختیار ات کے منافی قطعا نہیں ہوگا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ نے ابن ابی حدرد سے اپنے قرضے کا مطالبہ کیا یہ مسجد میں تھے ان کی آوازیں اونچی ہوگئیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں سنا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے اوراپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اورکعب بن مالک کو آواز دیتے ہوئے کہا ’’ اے کعب‘‘ اس نے کہا میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسول !آپ نے اپنے ہاتھ سے اسے اشارہ فرمایا کہ اپنا آدھا قرض چھوڑ دوکعب نے کہا چھوڑدیا یارسول اللہ رسالت مآب نے حدرد سے فرمایا اٹھواور بقایا ادا کردو۔(ابی دائود۳۵۹۵)۔
قاضی کو اگر معلوم ہوکہ قرض دینے والا کمزور ہے اورلینے والا صاحب استطاعت توقاضی کو چاہیے کہ کمزور کو ریلیف دلاوا دے ۔یہ انصاف کے قریب ترین عمل ہے ۔یا ریاست کمزور کی طرف سے قرض ادا کردے جس کی نظیر کتاب وسنت میں موجود ہے ۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مقروضوں مجبوروں کاقرض ادا کردیا کرتے تھے جناب عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سرکاری فرمان جاری کیا جس کے تحت غریبوں کو قرض میں رعائیت کا بندوست کیا گیا تھا۔اس روایت میں غریب آدمی کی عزت نفس کے تحفظ سے متعلق واضح ہدایت اورحکم موجود ہے۔افسوس ہمارے جمہوری معاشرے میں حقوق غصب کرنے والے حقوق کے محافظ ٹھہرے ہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجب تمہار ا کسی راستے کے بارے میں تنازع ہو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دو ۔(ترمذی ۳۱۵۶)افسوس ہمارے معاشرے میں راستوں سے متعلق جھگڑے سالہاسال چلتے رہتے ہیں یوں تو ہماری ریاست اسلامی جمہوی ریاست کہلاتی ہے مگر افسوس اس طویل عرصے میں ہم اسلامی عدالتی نظام متعارف نہ کرواسکے ۔ہماری عدالتیں تاریخ پہ تاریخ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی روایات کی پاسدارہیں ۔جہاں غریب عدالت کے راستے میں اپنی جان گنوا دیتا ہے ۔وکیل قاضی کو خرید لیتا ہے ۔انصاف طاقتور کی لونڈی ہے غریب کے حقوق کا کوئی پرسانِ حال نہیں ظلم کا بازار یونہی جاری وساری ہے ۔
تنگ راستے ہماری تنگ نظری کے عکاس ہیں تنگ گلیاں ہماری ضد انا اورجہالت کا پتہ دیتی ہیں ۔بحثیت مسلمان ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک مرتبہ میدان جنگ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے خیمے نصب کیے اور راستے تنگ کردیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبر دی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً خیمے اکھاڑنے کا حکم دیا اورسخت سرزنش فرمائی ۔ گلیوں کا تنگ ہونا اورراستے کا تنگ کرنا اسلامی تہذیب وثقافت کے منافی ہے ۔عرض پاک میں گزرگاہوں پرکاروبارِ زیست کرنے والوں کارش ہے ۔بازار تنگ ہیں مگر ریاست اورعوام خاموش تماشائی ہیں ۔
ابودائو کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی تمہارا بھائی تم سے تمہاری دیوار میں کیل گاڑنے کی اجازت چاہے تو اسے مت روکو(ابی دائود۳۶۳۴)ہمارے ہاں ہمسائے کو اپنا اپنا دشمن اورشریک تصور کیا جاتا ہے ۔طوالت سے اجنتاب کرتے ہوئے اصل موضوع کیطرف بڑھتے ہیں حقوق کا بے جااستعمال ہمارے معاشرے میں روزبروز بڑھ رہا ہے ۔حتی کہ بعض الناس تو عہدے نوکریاں ،سیاست میں شمولیت ہی حق کے بے جااستعمال کے لیے کرتے ہیں ۔یقینا یہ بہت ضروری ہو گیاہے کہ عامتہ الناس کو اس امرکی شرعی اورقانونی حیثیت سے اگاہ کیا جائے ۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن وسنت کی نصوص اور فقہ صحابہ میں حق کے بے جااستعمال سے متعلق کیا تعلیمات موجود ہیں ۔ڈاکٹر محی الدین ہاشمی کے نزدیک علماے اصول نے حق کے مفہوم میں دو نقطہ نظر کی تائید کی ہے (حدیث مسلم)اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں اوراللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کو عذاب نہ دے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتاہو(مسلم ۴۹)استاذمصطفی زرقا کے مطابق حق اس اختصاص کو کہتے ہیں جس سے شریعت کسی اختیار یا ذمہ داری کا تعین کرتی ہے ۔
اس کی اقسام متعدد ہوسکتی ہیں ،حق اللہ ،حق العبد،حق مشترک ،اس میں ’’مالی حق،غیرمالی حق،شخصی حق،عینی حق،حقوق ضروریہ ،حقوق اصلیہ ،حقوق عرفیہ ،حقوق ارتفاق ،اس میں حق مرور،حق تعلی،حق شرب،حق مسیل،حق جوار،حق اختصاص ،حق عقدوغیرہ ہیں ۔یاد رہے نیکی اور گناہ کا تعین عمل سے پہلے نیت کے ذریعے لازم آئے گا۔ یعنی نیکی اورگناہ کا تعین نیت سے ہوگا سورہ البقرہ ۲۸۴ میں وہ باتیں جوتمہارے دلوں میں ہیں خواہ انہیں ظاہر کرو یا چھپائو اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔
اگر کسی عہدہ ،یا عمل یا علم کے حصول کی نیت کی بنیادشر پر ہو تویاد رکھنا چاہیے کہ یہ نیت اعمال کی تباہی ہے ۔فرض کر لیجئے ایک فر د سیاست کو عبادت کے طور پر اختیار کرتاہے۔کمزوروں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کی نیت لے کر میدان میں آتا ہے پھر عمل بھی کرتاہے دوسرا سیاست کو اختیار ہی اس نیت سے کرتاہے کہ اپنے کاروبار کو وسعت فراہم کرے گا مگر لوگوں کو دھوکا دیتاہے اللہ تعالیٰ دونوں کی نیت سے واقف ہے ۔اللہ تعالیٰ روزِ محشر ضرور فیصلہ کرے گا۔اب کوئی کہے کب اورکہاں فیصلہ تو یہ بھی بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق ومالک ہے اورانسان اس کی مخلوق میں شامل ہے ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ یہ تسلیم کرے کہ اللہ تعالیٰ کل اختیار کا مالک ہے ،اللہ تعالیٰ جزاء وسز کاا مالک ہے ۔اس تصور کو بھلانا اللہ کے حق کو بھلانے کے مترادف ہے ۔یہ بھول ازخود سزا کے مترادف ہے ۔
زمین پر حضرت انسان متعدد آسمانی وبائو ں کا شکار ہے ۔سمندری طوفان،زراعت پر ٹڈی دل کیڑوں کا حملہ ،انسانوں پر کرونا وبا کاحملہ ،دنیا شٹ ڈائون ہوچکی ہے ۔میڈیا ڈرنا نہیں لڑنا ہے کی مہم چلارہا ہے جبکہ انسان اپنی بساط کے مطابق تدابیر اختیار کررہے ہیں ۔ان تمام تراقدامات کے باوجود ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم اجتماعی اعتبار سے سوچتے کہ یہ وبائیں ہم پر کیوں مسلط ہیں ۔کاشت کار فصل کاشت کرنے کے دن اللہ کا حق اس کے بندوں کو عطاکرتے ہیں ! نہیں،انسان ظلم وجبر، تکبر وعناد،فسق وفجور،بے حیائی وبرائی ،شراب وسرود سے منہ موڑ چکا! نہیں ۔بزنس مین اشرافیہ غریبوں کا خون چوسنے کاعمل معطل کرچکا !
نہیں… مگر افسوس وباکے ایام منافع خور ظلم وجور کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں ۔تیل مافیہ تیل کی شارٹج ،آٹا مافیہ ،آٹاشارٹج ،شوگر مافیہ مہنگی شوگر فروخت کرنے میں بضد ہیں ،بجلی بنانے والے کارخانوں نے قوم کو دن رات لوٹا ،ریاست لٹیروں کی محافظ بنی رہی ،حکومت نے چوروں کو بے نقاب کرکے اپنے فرائض سے بھاگنے کی کوشش کی ،حکومت واقعی سچی تھی تو عامتہ الناس کو بجلی میں بڑا ریلیف بروقت فراہم کرتی مگر نہیں ۔
جمہوری نظام حکومت میں سیاست دان لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں اوراقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں بعدازاں اپنے فرائض وعدوں سے غافل ہوجاتے ہیں ۔غفلت ،خاموشی،ظلم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آئیں گی ۔