بدر میں قریش کے ستر آدمی ما رے گئے تھے جن میں اکثر وہ تھے جو قر یش کے تا ج و افسر تھے اس بنا پر تمام مکہ جوش انتقام سے لبر یز تھا ۔چنا چہ جب فو جیں تیار ہو ئیں تو بڑے بڑے معزز گھرا نوں کی عو رتیں فوج میں شامل ہو ئیں ۔آنحضرت ؐ کو یہ خبریں پہنچیں تو آپ ؐ پا نچ شوال سنہ۳ھ کو دو خبر رساں جن کے نام انس اور مو نس تھے ، خبر لا نے کے لئے بھیجے ، انھوں نے آکر اطلاع دی کہ قریش کا لشکر مدینہ کے قریب آگیا ہے۔
سب سے پہلےطبل جنگ کے بجائے خاتو نان قریش دف پر اشعار پڑھتی ہو ئ آئیں، ہند اور ابو سفیان کی بیوئیاں آگے آگے تھیں اور چودہ عور تیں ساتھ ساتھ تھیں۔قریش کا علمبردار طلحہ نے صف سے نکل پکارا کو ئ ہے” جو مجھ کو جلد دوزخ میں پہنچا دے یا خود جلد بہشت میں پہنچ جا ئے” حضرت علیؓ نے جواب دیا “ہاں میں ہوں” یہ کہ کر تلوار سے طلح کو ڈھیر کر دیا، بھا ئیِ عثمان سے حضرت حمزہؓ کا مقابلہ ہوا حضرت حمزہ نے یہ کہ کر اس کا کام تمام کردیا کہ “میں ساقی حجاج کا بیٹا ہوں”۔
اب عام جنگ شروع ہو گئ ، حضرت حمزہ دلیری سے لڑ رہے تھےآپ جس طرف جا تے صفیں کی صفیں صاف ہو جاتیں۔ وحشی جو ایک حبشی غلام تھا ، اور جس سے جبرین معطم نے ، اس کے آقا نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ حمزہ کو قتل کر دے گا تو آزاد کر دیا جا ئیگا ، حضرت حمزہ جیسے ہی برابر میں آئےاس نے نیزہ کھینچ کر مارا جو ناف کے پار ہو گیا ،حضرت حمزہؓ نے اس پرحملہ کرنا چا ہا لیکن لڑکھڑا کر گر گئے اور روح پرواز کر گئ۔
تا ہم لڑائی کا پلہ مسلمانوں ہی کی طرف بھاری تھا ۔حضرت علیؓ اور حضرت ابو دجانہ ؓ کے بے پنا ہ حملوں سے فوج کے پاوں اکھڑ گئے ، دشمن بد حواسی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور میدان صاف ہو گیا یہ دیکھ کر مسلمانوں نے مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا ، یہ دیکھ کر تیر انداز جو جو پشت پر مقر کئے گے تھے وہ بھی مال غنیمت جمع کر نے لگے ۔
حضرت عبد اللہ بن حبیرؓ نے بہت روکا مگر وہ روک نہ سکے ، تیر اندازوں کی جگہ خالی دیکھ کر خالد نے عقب سے حملہ کیا حضرت حبیرؓ چند جا نبازوں کے سا تھ جم کر لڑے مگر سب کے سب شہید ہو گئے ۔حضرت مصبؓ بن عمیر جو آنحضرت ؐ سے چہرہ انور میں مشا بہ تھے اور علمبردار تھے ، ابن قیمہ نے ان کہ شہید کر دیا ، شور مچ گیا کہ حضورؐ شہید ہو گئے ہیں اس آواز سے بد حوا سی چھا گئی دوست دشمن کی تمیز نہ رہی قتل عام ہو گیا حضورؐ نے مڑ کر دیکھا تو صرف گیا رہ جا نثار آپ کے سا تھ ہیں ۔
عام مجمع میں سرا سیمگی تھی سب حضور ؐ کو تلاش کر ر ہے تھے سب سے پہلے کعب بن ما لک کی نظر چہرے مبارک پر پڑی لوگوں کو اطمینان نصیب ہوا ۔خاتونان قریش نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کی لاشوں سے بھی بدلہ لیا ، ان کے ناک کان کاٹ لئے ہند نے ان کا ہار بنا یا اور اپنے گلے میں ڈالا،حضرت حمزہ کی لاش پر گئی ان کا پیٹ چاک کیا کلیجہ نکالا اور چبا گئی گلے سے اتر نہ سکا تو اگل دیا ۔
اس غزوہ میں اکثر خوا تین اسلام نے بھی شرکت کی ان خواتین میں حضرت عا ئشہ ؓ حضرت ام سلیم اور حضرت ام سلیط ز خمیوں کو پا نی پلا رہی تھیں۔ انصاری خا تون عفیفہ کے باپ، بھا ئ،شوہر سب اس معر کہ ما رے گئے لیکن وہ صرف یہ پو چھتیں تھیں کہ رسول ؐ بخیر ہیں ، لو گو ں نے کہا بخیر ہیں پاس آکر چہرہ مبارک دیکھا اور بے اختیار پکار اٹھیں ” تیرے ہو تے سب مصیبتیں ہیچ ہیں’ شہدا اسی طرح خون میں لتھڑے ہوئے دو دو ملا کر ایک قبر میں دفن کر دیئے گئے۔
احد کے بعد خوا تین ما تم کر رہی تھیں، سینہ کو بی کر رہی تھیں آپؐ نےانہیں ایسا کرنے سے منع فر ما یا۔ آٹھ برس کے بعد آپؐ نے ایک خطبہ دیا کہ ” مسلما نو: تم سے یہ خوف نہیں کہ پھر مشرک بن جا و گے ، لیکن یہ ڈر ہے کہ دنیا میں پھنس جا و گے۔”
بہت عمدہ عکاسی کی گٸ ہے۔البتہ مزید تفصیل تحریر کاحسن بڑھادیتی۔
تحریر اچھی ہے مگر تشنگی کا احساس باقی ہے