ہمیں کچھ سالوں سے دفاعی بجٹ و دفاعی اداروں پر منظم تنقید برائے تنقید سننے کو مل رہی ہے اور مختلف پروپیگنڈوں کے زریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ دشمنان پاکستان و اسلام بخوبی جانتے ہیں کہ حربی طور پر پاکستان سے اس وقت تک ٹکرایا نہیں جا سکتا جب تکہ کہ پاکستان دفاعی طور پر کمزور نہ ہوجائے جیسا کہ لیبیا کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔
پہلے تو معمر قذافی کو نیوکلئیر پروگرام سے دستبردار ہونے پہ رازی کیا اور ساتھ خطرناک حد تک غیرمسلح کردیا اور پھر جواز بناکر لیبیا پر چڑھائی کردی، مخفی طور پر ایسی بہت سی کوششیں پاکستان میں بھی کی گئیں جو کارگر ثابت نہ ہوئیں تو ایک وسیع پیمانے پر ملکی دفاعی اداروں کے خلاف ذہنی تخریب کاری کی مہم کا آغاز کردیا گیا، کبھی جمہوریت کو بنیاد بناکر افواج پاکستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی تمام مسائل کی وجہ بتایا جاتا ہے اور وقتاً فوقتاً دفاعی بجٹ کو ملک پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔
ایک بار پھر سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر دفاعی بجٹ کو لیکر سوالات اٹھائے گئے جو انتہائی غور طلب معاملہ ہے موجودہ حالات میں ایک طرف تو دشمنان پاکستان افغانستان کے تھپیڑوں کو اندرون پاکستان منتقل کرنے پہ تُلے ہیں اور دوسری طرف فاشسٹ مودی سرکار جنگی جنون میں مبتلا ہے ایسے میں کہا جاتا ہے کہ دفاعی بجٹ ملک پر بوجھ ہے اور وہ لوگ بھی آگے آگے نظر آتے ہیں جو بھٹو صاحب کے بیان “گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے” کو بطور فخر پیش کرتے نہیں تھکتے لیکن دفاعی ادارے اور دفاعی بجٹ ان کو ایک آنکھ برداشت نہیں جوکہ ملکی مفادات و تحفظ کے ساتھ ساتھ اسلام کے بھی منافی ہے۔
دفاع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضور اقدسؐ کا وصال ہوا تو گھر میں دیا جلانے کے لیے تیل نہیں تھا لیکن ایک روایت کے مطابق نو اور ایک کے مطابق گیارہ تلواریں ضرور لٹکی ہوئی تھیں، دفاع کی اہمیت عقل و نقل دونوں سے ثابت ہے اللہ تعالیٰ نے دفاع کو مضبوط بنانے کا حکم دیا ہے قرآن کریم میں دفاعی نظام کی مضبوطی و اہمیت کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ اس بارے میں کئی آیات نازل فرمائیں اور نہ صرف احادیث میں دفاع کا حکم موجود ہے بلکہ خود حضور اقدسؐ نے بطور مسلح محافظ و جرنیل کے خدمات سرانجام دیکر دفاع کی اہمیت بتادی ہے۔
اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو شریعت نے عبادت کا درجہ دیا ہے اور اسلحہ و جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ریاست کے دفاع میں جس چیز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہ افراد کی فکری و ذہنی تربیت ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ افراد میں جذبہ حریت بیدار رکھا جائے اور ملک و ملت کی حفاظت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ جب دشمنان اسلام و پاکستان نے دفاعی اداروں و اسلام کے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے شروع کیے تو محافظوں نے ففتھ جنریشن وار سے متعلق پوری قوم کو اوئیرنیس دی جس پر چند دیسی منافقین نے مکارانہ طور پر تمسخر اڑا کر اس کی اہمیت عوام میں کم کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
معروف امریکی اسٹیٹس مین ہینری کسنجر نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ “ہم نے بہت سے مسلمان خرید رکھے ہیں جو ہماری توقعات سے زیادہ کام کررہے ہیں” اس کے مطابق غور کیا جائے تو یہ بات دل میں آکر ٹھہرتی ہے کہ یہ مخصوص طبقہ جو افواج پاکستان و دفاعی بجٹ کو نشانے پہ رکھتے ہیں اسی لسٹ کا حصہ ہیں جن کا ذکر ہینری کسنجر نے کیا۔ دفاعی اخراجات کے لیے خود آقا محمدؐ نے باقاعدہ بجٹ مقرر فرمایا “اللہ تعالیٰ نے بغیر لڑائی کے بنی نضیر کا مال و دولت آپؐ کو عطا فرمایا آپؐ ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ نکال کر باقی تمام دفاعی اخراجات پر خرچ فرماتے” اسلامی ریاست میں حضرت عمر فاروقؓ نے باقاعدہ فوج کا محکمہ قائم کیا اور تنخواہیں مقرر کیں، باقاعدہ فوجی چھاونیاں قائم کیں اور ایسی ایسی ایجادات کیں جن کا پہلے تصور نہ تھا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ محکمہ فوج کے قیام کے وقت حضرت عمرؓ نے جو بجٹ مختص کیا اس کی مقدار پانچ لاکھ درہم تھی جو اس زمانے میں غیرمعمولی رقم تھی۔ غزوہ تبوک کا واقعہ ہی کو دیکھ لیں کہ کائنات کے سب سے زیادہ بہتر سمجھ رکھنے والے حضور اقدسؐ نے صحابہ کرامؓ کو تیار فصلوں کو چھوڑ کر جہاد پہ چلنے کا حکم دیا جس سے یہ بات ثابت ہے کہ دفاع سب سے اہم ہے کیونکہ اگر ریاستی سالمیت سے ہی معیشت و دیگر امور ہیں اگر ریاست کی سلامتی ہی نہیں ہوگی تو نہ معیشت رہیگی نہ کچھ اور رہیگا۔
لہٰذا مذکورہ تصریحات سے ثابت ہے کہ دفاع سب سے اہم ہے اور دفاعی انتظام میں بجٹ، فوجی و ذہنی تربیت، جدید ترین جنگی آلات و ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ملک و اسلام دشمن عناصر و بدخواہوں کا سدِباب کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ملک و اسلام کے دفاع میں قبول فرمائے اور بدخواہوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔۔۔۔آمین