پرنٹ میڈیا الیکڑونک اور سوشل میڈیا سے لے کر بچے، بوڑھے،جوان غرض ہر انسان سے آپ آج کل کے حالات کے متعلق بات کریں گے تو ایک ہی جواب سننے کو ملے گا کے 2020 تو ہے ہی منحوس اتنی آفات آرہی ہیں ہر بندہ ہی مشکلات میں گِھر چکا ہے، ہر شخص یہی کہتا پھرتا ہے زمانہ خراب ہے۔
یہاں میں ایک چیز کی وضاحت کرنا چاہوں گی کہ زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین کو کوئی مصیبت پہنچتی تھی یا کوئی بھی دکھ بھرا لمحہ آتا تھا تو وہ زمانے کو کوسنے لگتے تھے حدیثِ قدسی ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : ”زمانے کو برا مت کہو زمانہ تو میں ہوں ” ہم لوگوں کو سمجھ ہی نہیں ہے کہ زمانہ کہتے کس کو ہیں؟ یہ تو محض ایک مدت ہے اک ہندسہ ہے جو اپنی بارہ مہینے کی مدت پوری کر کے ختم ہو جائے گا۔ زمانے کو برا بھلا کہنے کا مطلب یہ ہوا ہم اللہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ہم پہ مصیبت آتی ہے پریشانی آتی ہے اس میں قصور وار زمانہ نہیں ہم خود ہیں۔
ایک کمپنی کے مالک کو دیکھ لیں ذرا سی غلطی ہوئی نہیں اور ملازم کو نکال باہر کرتے ہیں۔گھر کی مالکن کو دیکھیں ذرا سی کوتاہی پہ پورے دن کے پیسے کاٹ لیتی ہے یہ بھی نہیں خیال کرتی اس غریب و لاچار کے گھر کا چولہا انہی پیسوں سے چلتا ہے۔
اس قدر سنگدلی پہ کوئی عذاب آئے، کوئی سزا ملے، قصور وار کون؟ اکثر لوگ کہتے ہیں پہلا وقت اچھا تھا ایسی آفات، ایسی پریشانیاں کم تھیں تو میں ان سب کے جواب میں یہ کہنا چاہوں گی کہ تب لوگ اچھے تھے ۔ ان میں احساس تھا۔آج کل لوگ مشین بن چکے ہیں۔ احساس اور جذبات سے عاری۔ یہاں میں اپنی آنکھوں دیکھا اک واقعہ آپ سب کی نذر کرنا چاہوں گی۔
جیسے ہمارے معاشرے کی اک رسم ہے وٹہ سٹہ کے نام کی کچھ ایسی ہی رسم ایک گاؤں میں ادا کی گئی لیکن بد قسمتی سیے ان میں اک لڑکی ذرا رنگ کی سانولی تھی۔ شادی کے بعد لوگوں نے لڑکے سے کہنا شروع کر دیا کہ تمہاری گھر والی تو رنگ کی پکی ہے۔ اس لڑکے نے لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جیسے ہی وہ لڑکی اپنے میکے پہنچی اسکے بھائی نے بہن کی حالت دیکھ کر اپنی بیوی کو بھی طلاق دے دی اور یوں دو ہنستے بستے دو خاندان اجڑ گئے۔
یہاں بلالِ حبشی کسی کو یاد نا آے۔ صرف رنگ کی وجہ سے اس معصوم کی زندگی برباد کر دی گئی اب اگر عذاب الہی نازل ہوتا ہے تو اس سب میں قصور وار کون ہے؟ اگر ہم آج کل کے حالات کو سامنے رکھیں جیسے کہ ہر طرف وبا پھیل چکی ہے لیکن یہ ہم پہ یک دم نہیں بھیج دی گئی جب چائنہ میں یہ وبا پھیلی پوری دنیا میں خبر پھیل گئی تھی۔ کوئی بھی ملک اس وبا سے انجان نہیں تھا۔ہم سب نے چائنا سے افسوس کا اظہار کیا لیکن جو چیز ہمیں کرنی چاہئے تھی وہ نا ہو سکی ہم سے۔ ہم لوگوں نے ویسا ہی طرزِ زندگی اختیار کیے رکھا۔
جیسے ہی وہ وبا دوسرے ملک میں پھیلی ہم کان لپیٹے اپنے اپنے دھندوں میں لگے رہے ہم کوئی حفاظتی تدابیر نہ کر سکے۔ پوری دنیا کے لوگ مر رہے ہیں تباہی پھیل رہی ہے اور ہم یہ کہنے میں مصروف رہے کہ اللہ مالک ہے دیکھ لیں گے جب کچھ ہوا۔۔۔اور اب جو ہو رہا ہے اس میں قصور ہمیں 2020 کا لگ رہا ہے۔ اب جب کہ یہ وبا سب کی جان لینے کے در پے ہے ابھی بھی کچھ لوگ اس سے سبق حاصل نہیں کر رہے ابھی بھی ہمیں ہمارے سیاہ نامے نہیں دِکھ رہے ابھی بھی یہ وبا ہمیں سازش لگ رہی ہے۔
گھروں میں رہنے کے بجاے ہم بازاروں میں پھر کر اس وبا کو خود اپنے گھر دعوت دے رہے ہیں اپنے ساتھ خود برا کر کے ہم یہ کہتے ہیں کہ 2020 تو ہے ہی منحوس۔۔۔انسانیت کے لبادے میں چھپے بھیڑیے جنکے ہاتھوں نے نجانے کتنی نازک کلیوں کو نوچ ڈالا۔ نجانے کتنے وحشی درندوں نے معصوم لڑکیوں کو روند ڈالا۔انکی پکار پہ کسی نے کان نہ دھرے؟کچھ دنوں تک سب شور مچاتے ہیں اور پھر وہی گہرا سکوت چھا جاتا ہے۔ اب اس میں قصور وار کون اب اگر عذاب الہی نازل ہوتا ہے تو کیا زمانہ برا ہے؟ ۔
حال ہی میں طیارہ گرنے کا جو واقعہ پیش آیا طرح طرح کی باتیں کی گئیں بہت سے تجزیہ کاروں نے تجزیے پیش کئے۔ یہاں میں کچھ بھی کہنے سے پہلے قرآنِ کریم کی ایک سورت، سورۃ الکہف کا حوالہ دینا چاہوں گی۔ ”جب حضرت موسیٰ نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا کہ سب سے زیادہ علم میرے پاس ہے تو اللہ کو انکا یہ جواب پسند نہیں آیا اور حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ جا کے حضرت خضر سے جا کے ملیں۔
حضرت خضر سے حضرت موسیٰ کی ملاقات کا مقصد یہ تھا کے چند پوشیدہ پہلوؤں سے انکو روشناس کروایا جا سکے جب حضرت موسیٰ ان سے ملے اور انکے ساتھ ایک سفر پر روانہ ھوے تو حضرت خضر نے جس کشتی میں وہ سوار تھے وہاں سے ایک تختہ نکال دیا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد انکو ایک لڑکا ملا حضرت خضر نے اس لڑکے کو قتل کر دیا۔ تھوڑا اور دور جانے کے بعد وہ ایک بستی سے گزرے وہاں ایک دیوار جو گرنے کو تھی حضرت خضر نے اسکو تعمیر کر دیا۔
آخر کار حضرت موسیٰ اور صبر نہ کر سکے اور ان سے سوال کرنے لگے تو حضرت خضر نے انکو وہ تمام پوشیدہ امور بتادیے۔ یہ تمام پوشیدہ امور علمِ تکوین سے جوڑے جو براہِ راست اللہ سے تعلق رکھتے ہیں علمِ تکوین کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے کون کب مرے گا؟ کون کیسے مرے گا؟ یہ سب اس علم سے جڑا ہے۔ بظاہر غلط نظر آنے والے امور اپنے اندر مصلحت لئے ہوے ہوتے ہیں ”۔
اسی طرح طیارہ حادثہ بھی علمِ تکوین سے منسلک ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت درد ناک حادثہ تھا بہت سے خاندان تباہ ہو گے اس پہ صرف افسوس کیا جا سکتا ہے اور ہلاک ہونے والوں کے لئے دعا کی مغفرت۔۔ کیوں کہ یہ رضاِئے الہیٰ تھی۔ اللہ ارشاد فرماتے ہیں دنیا میں کوئی پتا بھی ہلتا ہے تو مجھے پہلے خبر ہو جاتی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے اتنا بڑا حادثہ اسکی مرضی کے بنا پیش آے؟
اس حادثے کو لے کر زمانے کو کوسا گیا۔ ادارے کو گالیوں سے نواز گیا۔پائلٹ پہ تنقید کی گئی۔ غرض ہر طرح سے ہم نے کسی شے کو بخشا نہیں۔ یہاں ہم اپنے نبیؐ کو یاد کر لیتے جب نبی کریم کے بیٹوں کی وفات ہوئی تو آپؐ نے فرمایا : ”دل غمگین ہے آنکھ آنسو بہاتی ہے لیکن زبان سے وہی کہیں گے جس پہ اللہ راضی ہو”۔
یہاں ہمارے دل بھی غمگین تھے۔ آنکھوں میں آنسو تھے لیکن ہماری زبانوں پہ کیا تھا؟یہ آپ سب بھی بہتر جانتے ہیں۔ ہم لوگ در اصل خود پہ خود ہی ظلم کرتے ہیں اور جب ہمیں سزا ملتی ہے تو ہم بہانے بنانے لگتے ہیں بس جواز ملا نہیں اور شروع ہو جاتے ہیں چیزوں کو جسٹی فائے کرنے لگتے ہیں۔ ہم مان کیوں نہیں لیتے ہمارے اوپر آنے والی ہر وبا ہر سزا ہر عذاب ہمارے اپنے گناہوں کی مرہونِ منت ہے۔
ہم سب لوگ صاحبِ استطاعت فرعون ہیں بڑے لوگوں کا کیا رونا رویا جائے جب کہ یہاں غریب عوام ہی ایک دوسرے کو لوٹ رہی ہے۔ آپ بازار جائیں اور دیکھیں ایک ریڑھی والا خرید ؤ فروخت کیسے کرتا ہے؟ اسکی کوشش یہی ہوتی ہے اسکا خراب مال بھی بک جائے۔ اس چکر میں وہ اپنے جیسے بھائی کی ہی کھال اتار لیتا ہے۔ اکثر تاجر حضرات سے سننے کو ملتا ہے تجارت میں اونچ نیچ تو چلتی رہتی ہے۔
یہ تاجر لوگ یہاں حضرت محمدؐ کو یاد کیوں نہیں کرتے جب ایک مرتبہ آپ ؐ حضرت خدیجہ کے مال کو تجارت کی غرض سے لے کر جا رہے تھے تو راستے میں بارش ہونے کی وجہ سے کچھ گندم خراب گئی۔ نبی کریم نے متاثر ہ مال کو الگ رکھ کر اسکی قیمت کم کر دی اس سے غریب لوگوں کو بھی کافی آسانی ہو گئی۔ اب یہاں بھی کیا ہم الزام زمانے کو دیں گے؟ یہاں ضرورت خود کو بدلنے کی ہے اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی ہے۔ ہم نے خود کو اندھیرے راستوں کا راہی کر لیا ہے۔ ہم نے اتنے ظلم کئے ہیں کہ اب اللہ کے غصے کو دعوت مل چکی ہے۔ اب آپ سب خود فیصلہ کریں قصور وار ہم ہیں یا زمانہ۔۔؟