پیرس آف ایشیا کہلوانے والا کراچی بدامنی و عدم استحکام کا شکار کیوں ہوا؟ انتقال آباد کے معاہدے کے تحت انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والوں کی اکثریت تاجر، ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی آخر ایسے طبقے میں الطاف حسین کیونکر پیدا ہوئے؟ وہ کونسی وجوہات تھیں کہ سندھ لسانیت و نفرتوں کا گڑھ بن گیا؟ پاکستان کے ادارے ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار کیوں ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات سے تقریباً ہر خاص و عام واقف ہے لیکن کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنا تو دور ان مسائل کے تدارک و خاتمے کے لیے سنجیدہ تک نہیں اور ان مسائل کا فائدہ اٹھا کر بیرونی قوتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتی ہیں۔
ایک بار پھر سندھ سے لسانیت علاقائیت و صوبائیت کی آگ سلگتی بلکہ سلگائی جاتی دکھائی دے رہی ہے جس کی نذر سب سے پہلے نظریہ پاکستان اور محمد بن قاسم جیسے اسلامی ہیرو کو کیا گیا اور راجہ داہر جیسے بدکردار کو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ہیرو بنانے کی مہم چلائی گئی، ڈومیسائل کے معاملے پر جب سندھ حکومت کو محسوس ہوا کہ اب جعلی ڈومیسائل کا معاملہ اس کے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے اور سندھ حکومت کا شہری سندھ سے تعصب کا سلسلہ کھل کر سامنے آجائیگا تو فوراً اسے دوسرا رنگ دیدیا گیا اس ضمن میں ٹویٹر پر ٹرینڈ چلایا گیا کہ دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب و خیبرپختونخواہ کے شہریوں نے سندھ کے ڈومیسائل بنواکر سندھیوں کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے۔
اگرچہ اس کے ذریعے جُز وقتی صوبائیت و لسانیت کا بت کھڑا کرنے میں یہ کامیاب ہوگئے ہیں لیکن “حق غالب آنے کے لیے ہے” کے مصداق سچائی زیادہ عرصہ تک چھپائی نہیں جاسکتی، پیپلزپارٹی مسلسل تیسری بار سندھ کی عنان و اقتدار کی مالک ہے ایسے میں جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر ریاست پاکستان کو اس کا ذمہ دار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کھیل کے زریعے یہ بات کیونکر دبائی جاسکتی ہے کہ دیہی سندھ کے رہائشیوں کو شہری سندھ کے جعلی ڈومیسائل بنا بناکر لاکھوں کی تعداد میں بھرتی کیا گیا جو کہ شہری سندھ کی محرومیوں میں روز افزوں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور جب بار بار کی فریاد پر سندھ حکومت کی طرف سے کوئی مثبت ریسپانس نہ آیا تو متحدہ کے خواجہ اظہار نے عدالت سے رجوع کیا جس کے ردعمل میں ڈومیسائل کے معاملے کو غلط رنگ دیا جارہا ہے کہ پنجاب و KPK کے افراد نے سندھ کا ڈومیسائل بنواکر سندھ کے رہنے والوں کی حق تلفی کی ہے۔
یقیناً ایسا ہوا ہے لیکن ایسے چند کیس ہیں جبکہ دیہی سندھ کے رہنے والوں کے شہری سندھ کے ڈومیسائل بناکر داخلوں اور سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کیس ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممبر سندھ پبلک سروس کمیشن سائیں داد سولنگی خود دیہی ڈومیسائل رکھتے ہیں بیٹا دیہی ڈومیسائل پر بھرتی ہوا جبکہ دو بیٹیاں شہری ڈومیسائل پہ بھرتی ہوگئیں، 2014 میں باٹنی لیکچررشپ میں دیہی ڈومیسائل پہ انٹرویو میں فیل ہونے والے دو امیدوار محمد ماجد اور محمد پنہل اگلے ماہ شہری ڈومیسائیل پر لیکچرر بھرتی ہوگئے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے SPSC کے مقابلے کے امتحان پر سوموٹو نمبر 18/2016 کے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ “پبلک سروس میں شہری علاقوں سے کھلم کھلا اور واضح تعصب روا رکھا جاتا ہے” اور المیہ یہ ہے کہ اگر اس ناروا سلوک کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو فوراً اسے سندھ دشمنی قرار دیکر لسانیت کارڈ کے زریعے ریاست کو بلیک میل کرنا شروع کردیا جاتا ہے سندھ میں لسانی بنیاد پہ تفریق کے پس پردہ چند خاندانوں کے سیاسی مفادات ہیں اگر سندھ میں لسانی تفریق کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو حقیقتاً یہ زبان یا قومیت کا قطعی طور پر مسئلہ نہیں بلکہ یہ چند گھرانوں یا مخصوص افراد کا گھناونا کھیل ہے جس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں جیسا کہ مشرقی پاکستان میں زبان و محرومیت کا پروپیگنڈہ پھیلا کر خانہ جنگی کی طرف دھکیلا گیا جو بنگلا دیش پہ اختتام ہوا حالانکہ 1956 کے آئین میں بنگالی کو اردو کے ساتھ بطور قومی زبان تسلیم کیا جاچکا تھا۔
رہی محرومیت کی تو اندازہ کریں کہ دوسرا گورنر جنرل، دوسرا وزیراعظم، پہلا صدر بنگال سے تھے شروع کے آٹھ وزراعظم میں سے اکثریت کا تعلق بنگال سے تھا اور اہم عہدوں پر بھی بنگالی بھائی براجمان تھے لیکن اندرونی دشمنوں کی مدد سے بھارتی پروپیگنڈہ اتنا کارگر ثابت ہوا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، اس کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایک بیان دیا کہ “عنقریب بھارتی عوام کو ایک اور خوشخبری دینگے” تو ساتھ ہی سندھ میں سندھو دیش کی تحریک شروع ہوگئی جسے وقتی طور پر تو خاطرخواہ کامیابی نہ ملی لیکن بھٹو صاحب کے ٹیلینٹڈ کزن ممتاز بھٹو نے لسانی بل کے زریعے اس میں روح پھونک دی اور کہا جانے لگا کہ دیہی سندھ پسماندہ ہے اس لیے شہری علاقوں کے مہاجرین سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی حساب سے آگے ہیں جسے بیلینس کرنے کے لیے دس سال کے لیے نافذ کر دیا گیا جس کے مطابق دیہی سندھ کے رہنے والوں کا سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی داخلوں میں حصہ 60 فیصد مقرر کیا گیا جسے شہری سندھ کے رہنے والوں نے مصلحتاً ہی سہی لیکن قبول کرلیا۔
جب کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا تو سندھ میں دیہی سندھ میں تعلیم یافتہ افراد آٹے میں نمک کے مترادف تھے اور کمی کو پورا کرنے کے لیے ڈگریاں بانٹنے کی حکمت عملی اپنائی گئی جس کے تحت نقل کرنے کی غیراعلانیہ اجازت دی گئی جس سے سندھ میں کاپی کلچر کے ناسور نے جنم لیا جو اب سندھ کی پہچان بن چکا ہے، کوٹہ سسٹم تھا تو دس سال کے لیے لیکن آج پچاس سال ہونے کو ہیں اور آج بھی قائم ہے ایسے میں جب محرومیاں بڑھنے لگیں تو الطاف حسین کے نعرے کے گرد اردو اسپیکنگ جمع ہونے لگے اور جلد ہی سندھی مہاجر تصادم اٹھ کھڑے ہوے جسے کچلنے کے لیے ریاست نے یکطرفہ طور پر MQM پر تین بار آپریشن کیے اور آخری آپشن کے طور پر الطاف حسین پر پابندی لگاکر وقتی حل نکال لیا لیکن بقول جاوید چودھری یہ حل کوئی حل نہیں۔
جب تک ریاست مسائل کی ماں کو نہیں مارے گی مسائل ختم نہیں کریگی تب تک بہت سے الطاف حسین پیدا ہوتے رہینگے آج ایک الطاف حسین پر پابندی لگائی ہے کل ایک اور الطاف پیدا ہوجائیگا لہٰذا ریاست کو اس کا کل وقتی حل کرنا ہوگا کیونکہ لسانیت کی آگ میں بہہ کر نہ صرف محرومیاں بڑھ رہی ہیں بلکہ بیرونی قوتیں اس کی آڑ میں ریاست مخالف جذبات کو ہوا دے رہی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ چند گھرانوں نے اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے وہ جسے چاہیں افسر لگوادیں جسے چاہیں کہیں پوسٹنگ دلوادیں جس کی وجہ سے ملک و صوبے کے تمام ادارے فالج زدہ ہوگئے ہیں۔