حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی اہل بیت وصحابہ کرام سے محبت

(دوسری قسط)

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کاعدل وانصاف ،علم وتقویٰ معروف ہے ۔آپ کا اندازحکمرانی بلاشبہ اصحاب خلفاء راشدین کے مشابہ ہے ۔آپ کو تقویٰ اورعدل وانصاب کی وجہ سے عمر ثانی کہا جاتا ہے ۔آپ نے اپنے انصاف پسندانہ فیصلوں کے ذریعے امت محمدیہ پر سند ثابت کی کہ آخرین ایمان اورتقویٰ ،عدل وانصاف ،خیرخواہی وعجزوانکساری کے ذریعے سابقین اصحاب خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی زمانے کی یادیں تازہ کرسکتے ہیں ۔آپ کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت سے محبت قابل تعریف اورلائق ستائش ہے ۔

بحثیت حکمران آپ کی اہل بیت سے محبت: فاطمہ بنت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے عمر بن عبدالعزیز کا ذکر کیا اوربہت زیادہ رحمت کی دعادی اورکہا میں اس زمانے میں ان کے پاس گئی جب وہ امیر مدینہ تھے ،انہوں نے میری آمد پر اپنے گھر میں موجود تمام افراد بشمول دربان کو باہر نکال دیااورکہا کہ اے دختر علی رضی اللہ عنہ اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی خاندان میرے لیے آپ لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں ہے اورآپ لوگ مجھے اپنے متعلقین سے بھی زیادہ محبوب وعزیز ہیں۔(طبقات ابن سعد۵،۲۵۱)سیدہ فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ نے آپ کو خط لکھا جس میں روزینہ اور خادم کے لیے کہا گیا تھا جیسے ہی آپ رحمہ اللہ کو یہ خط موصول ہوا تو فورا آپ نے اس کا جواب لکھا آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا تحریرکی بعدازاں اہل بیت اصحاب کے فضائل تحریر کیے۔

سیدہ فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے 500دینار وظیفہ مقرر کیا اورایک خادم عنائیت کیا ۔اس فیاضی پر سیدہ فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ نے دوبارہ خط لکھا جس میں ان پر احسان کا شکریہ ادا کیااورکہاواللہ امیرالمومنین آپ نے اسے خادم دیا جس کا پاس کوئی خادم نہ تھا،اسے پوشاک دی جو برہنہ تھا،جس کے پاس خرچ نہ تھا اسے خرچ دیا۔یحیٰ بن ابی یعلیٰ سے مروی ہے کہ مجھے فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ نے بلوایا اورکہا لکھو،بسم اللہ الرحمن الرحیم ،اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر کو فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے سلام علیک ،میں آپ کے سامنے اللہ کی حمدوثنا بیان کرتی ہوں ،جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،امابعداللہ تعالیٰ امیرالمومنین کی اصلاح کرے اورجوبارِ خلافت ان کے سپرد کیا ہے اس میں ان کی مدد کرے اوران کے دین کی حفاظت کرے۔(ابن سعد)دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن محمدبن عقیل بن ال طالب سے مروی ہے کہ سب سے پہلا مال جس کو عمر بن عبدالعزیز نے تقسیم کیا وہ تھا جو انہوں نے ہم اہل بیت کے پاس بھیجا ،خواتین کو اتنا ہی دیا جتنا کہ مرد کو بچے کو بھی عورت کے برابر دیا ،ہم اہل بیت کو تین ہزار دینار پہنچے اورلکھا اگر میں زندہ رہا توآپ کو تمام حقوق دیتا رہوں گا۔

بحثیت حکمران آپ کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت: ابراہیم بن میسرہ سے مروی ہے کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کو خلافت کے زمانے میں کسی کو مارتے نہیں دیکھا سوائے ایک شخص کے جس نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق نازیبا کلمات کہے انہوں نے اس شخص کی سرزنش کی اور تیس کوڑے لگائے ۔آپ رحمہ اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تحسین کرتے اگر کوئی فرد ان کے درمیان باہمی اختلاف کا ذکر کرتا توفورا کہتے یہ ایساامر ہے جس کو اللہ نے تم لوگوں کے ہاتھوں سے باہر کردیا ہے ۔(طبقات ابن سعد)یونس بن عبید سے مروی ہے کہ انصار میں سے ایک شخص حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوااور کہا امیرالمومنین میں فلاں ابن فلاں ہوں میرے دادا جنگ بدر میں اوروالدجنگ احد میں شہیدہوئے اوراپنے بزرگوں کے مناقب بیان کرنے لگاآپ نے اسے سنا اور صحابہ کرام کے فضائل بیان کیے بعدازاں آپ نے نے عنبسہ بن سعید کی طرف دیکھا جو ان کے پاس تھے اورسخت ناراضگی کی اظہار کیا اوربشر بن سلمہ کو لکھا

امابعد اس معاملے کو درست رکھو جوتمہارے اوراللہ کے درمیان ہے اورجان لوکہ میں نے تمہیں بہت بڑی امانت میں شریک کیا ہے ۔اگر تم نے اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق ضائع کردیا توتم اس کے نزدیک اس کی مخلوق بھر سے ذلیل ہوگے اورعمر تمہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ہرگز ہرگز نہیں بچا سکے گا۔اہل بیت واصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت لائق ستائش تھی ،ہرعام وخاص کو یاد رکھنا چاہیے صحابہ واہل بیت سے محبت ایمان کا لازمی جزو ہے ۔آپ رحمہ اللہ نے اپنے دورِ اقتدار میں اہل بیت اورصحابہ کرام کے حقوق میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہ کی ۔اولادِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آلِ اہل بیت آپ رحمہ اللہ کے عدل وانصاف سے راضی اوردعاگو تھے ۔حضرت عمر بن عبدالعزیز اکثر کہا کرتے واللہ میری دلی خواہش ہے کہ ہرروز عدل کروں اوراسی حالت میں اللہ مجھے اپنے پا س بلالے ۔

اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔آپ رحمہ اللہ نے یزید بن عبدالملک کو وصیت میں لکھا کہ تم اس سے بچنا کہ تمہیں غلبے کے وقت بچھڑنا نہ پڑے کہ پھر اس کو لغزش کہا جائے اورتمہیں اصلی حالت میں لوٹنے کا موقع نہ دیا جائے اوریاد رکھو جس کو تم نے پیچھے کردیا وہ تمہاری تعریف نہ کرے گااورجس کے خلاف تم نے فیصلہ کیا وہ تمہیں معزور نہ جانے گا۔دوسری روایت میں ہے کہ مجھے یہی چیز نظر آتی ہے جومیرے ساتھ ہے (موت)میرا گمان یہی ہے کہ خلافت تمہیں پہنچے گی ،امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا تم دنیا اس شخص کے لیے چھوڑدو جوتمہاری مدح نہ کرے اوراس کو پہنچائو جو تمہیں معزور نہ جانے۔والسلام علیک۔اللہ تعالیٰ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی قبر پر لاکھوں کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ،آپ کی زندگی کو ہرعام وخاص کے لیے مشعل راہ بنائے ۔

شام کے شہرادلب میں جہاں آپ مدفون ہیں انتہائی کرب سے لکھ رہا ہوں میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کے مطابق خارجیوں نے آپ کی قبر کی بحرمتی کی ہے ،امت مسلمہ کے حکمرانوں پر یہ قرض بھی ہے اورفرض بھی کہ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ودیگر کبار صحابہ ومحدثین کی آرام گاہوں کے تقدس کو پامال نہ ہونے دیں اورمجرمین کو نشان عبرت بنائیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو ۔۔۔۔جاری ہے۔

جواب چھوڑ دیں