کب عید آئی اور کب گئی کچھ پتہ ہی نہ چل سکا عجیب اداس عید تھی جو یتیموں اور لواحقین کے آنسو پوچھنے میں گزر گئی۔ ملکی موجودہ صورتحال سنگین ہونے کے ساتھ ساتھ غمگین بھی دکھائی دیتی ہے۔کورونا وائرس کی وبا نے تو گویا قدم جمائے ہی مگر اسکے ساتھ ہی کراچی میں عید سے دو روز قبل 22 مئی 2020 جمعہ کی دوپہر ہوئے طیارہ حادثہ نے بھی فضاء کو سوگوار کر دیا جب پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا مسافر بردار طیارہ کراچی ایئرپورٹ سے ملحقہ شہری آبادی ماڈل ٹاؤن میں گر کر تباہ ہو گیا ہے طیارے میں عملے کے اراکین سمیت 99 افراد سوار تھے۔
اس آبادی میں ایک گھر کی چھت پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے نے طیارے کے زمین پر گرنے سے چند سیکنڈز قبل کی ویڈیو محفوظ کی۔طیارہ حادثہ میں تقریبا” بارہ گھر زد میں آئے جبکہ دو مکان مکمل تباہ ہو گئے۔اس طیارہ حادثہ نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا مگر اس حادثے نے میرے اندر کی وہ کیفیت زندہ کر دی جب میں ایسے حادثے سے بچ گئی تھی۔ میرے ساتھ دو بار ایسا تجربہ ہوا جب میں ایسے حادثات سے بال بال بچ گئی ایک بار کراچی سے لاہور جانے والی فلائٹ جب ایئر پورٹ پر جگہ نہیں تھی اور جہاز کو ہوا میں ہی چکر لگانا پڑا اور ایک بار جب میرا سفر لاہور سے کراچی کیلئے تھا تو چھانگا مانگا کے قریب موسم کی خرابی کے باعث جہاز نے جھٹکے لیے۔
جس وقت پائلٹ نے صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے اناؤسمینٹ کی اس وقت جو جہاز میں لوگوں کی کیفیت تھی مجھے اس حادثے کی خبر سنتے ہی وہ وقت یاد آگیا جب بچے اور بڑے سب رونے لگے تھے کلمہ طیبہ کی آواز بلند تھی اور میں نے کلمہ پڑھ کر موبائل نکال کر چیک کیا تھا تاکہ گھر پر آخری پیغام دے سکوں شوہر اور بچے کی آواز سن سکوں مگر نیٹ ورک نہ ہونے پر دل بہت اداس ہوا تھا۔تقریبا” پندرہ منٹ کی پریشانی اٹھانے کے بعد اللہ نے معجزاتی طور پر ہماری اور جہاز کی حفاظت فرمائی اور پائلٹ نے ہمیں خوشخبری دی کہ اب ہم محفوظ ہیں۔مجھ سمیت جہاز میں سوار تمام لوگوں نے موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد زندہ رہ جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔
مگر کیا کوئی سمجھ سکتا یے جب طیارہ جھٹکے کھا رہا ہو اور مسلسل اناؤسمینٹ جاری ہو تو مسافروں کا کیا حال ہوتا ہو گا بچوں کے رونے کی آوازیں لوگوں کی چیخوں اور بے بسی کا کیا عالم ہوتا ہو گا۔ایک طرف اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا درد بھی تڑپا رہا ہوتا ہے اور دوسری جانب وہ ارمان رلا رہے ہوتے ہیں جو دل میں رکھ کر سفر کی طرف گامزن ہوا جاتا ہے۔اشکوں بھری آنکھوں سے اس موضوع پر لکھنا ہر بار دشوار ہوا مگر آج ان اشکوں کی نمی کے ہمراہ ہی طیارہ حادثات کی داستان لکھنے کا سوچا۔سب سے پہلے طیارہ کی بات کرتے ہیں طیارہ ایک ایسا ہوائی جہاز ہوتا ہے جو اپنی ساخت میں مخصوص اور مستقل پر نما اجسام رکھتا ہے اسی لیے سائنسی اصطلاح میں اس کو معین پردار ہوائی جہاز بھی کہا جاتا ہے۔
جنگی طیارے،مسافر بردار فضائی طیارے معین پردار ہوائی جہازوں کے پَر ایک ہی جگہ پر مستقل ہوتے ہیں یعنی وہ حرکت نہیں کرتے جبکہ ہیلی کاپٹر کے پر حرکت کرتے ہیں۔طیارہ حادثات کی مختلف وجوہات ہوتی ہے کبھی کسی مشینری کی خرابی، کبھی موسم کی خرابی یا کبھی انسانی غفلت۔مگر وجہ کوئی بھی طیارہ حادثہ ہمیشہ اپنے پیچھے لاکھوں سوالات اور کہانیاں چھوڑ جاتا ہے۔جبکہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اور اسکی شفاف انکوائری نہایت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں اور ایسے سانحات کا جو بھی ذمہ دار ہو اسے کڑی سے کڑی سزا ملے۔
اب ذرا طیارہ حادثات کی تاریخ کی بات کرتے ہیں۔22 مئی کو پیش آنے والا حادثہ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں ہونے والے فضائی حادثات میں نیا اضافہ ہے۔اس سے قبل پاکستان میں پیش آنے والے متعدد فضائی حادثات ہوئے جس میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار گئے تحقیقات کے بعد کچھ کی مختلف وجوہات سامنے آسکیں اور کچھ کے فیصلے تاحال التواء کا شکار ہیں۔پہلا حادثہ 26 مارچ 1965 کو ہوا جب پی آئی اے کا پشاور سے چترال جانے والا طیارہ دیر ویلی کے قریب لواری پاس پر گر کر تباہ ہو گیا جس میں سوار 26 مسافروں میں سے 22 زندگی کی بازی ہار گئے۔ دوسرا حادثہ 20 مئی 1965 کو ہوا پاکستان کی فضائی تاریخ میں یہ حادثہ پی آئی اے کی کراچی سے لندن جانے والی پرواز کو پیش آیا۔ یہ طیارہ براستہ سعودی عرب اور مصر لندن جا رہا تھا کہ قاہرہ ایئر پورٹ پر گر کر تباہ ہو گیا۔
بوئنگ 707 طیارے پر سوار 124 افراد شہید ہوئے جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے۔06 اگست 1970 کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا ایک ایف 27 فوکر طیارہ ٹیک آف کے دوران طوفان کی زد میں آ کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں عملے سمیت جہاز میں سوار 30 افراد شہید ہو گئے۔اسکے بعد 08 دسمبر 1972 میں جو حادثہ ہوا اس حادثے میں گلگت سے راولپنڈی آنے والا پی آئی اے کا فوکر جہاز جلکوٹ کے مقام پر میدان کے علاقہ میں گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں 31 افراد شہید ہوئے۔26 نومبر 1979 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارہ جو سعودی عرب سے حجاج کرام کو لے کر وطن واپس آرہا تھا۔ ٹیک آف کے فوراً بعد جدہ ایئر پورٹ پر گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 156 افراد شہید ہوئے۔
23 اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر ایف 27 طیارہ پشاور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں جہاز میں سوار 13 مسافر شہید ہو گئے۔17 اگست 1988 کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور کے قریب امریکی ساختہ ہرکولیس سی ون تھرٹی طیارہ اُڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا۔حادثہ میں اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق اپنے 30 دیگر ساتھیوں اور امریکی سفیر سمیت شہید ہوگئے تھے۔اس حادثے کی بھی وجوہات آج تک سامنے نہیں آسکیں جبکہ 25 اگست 1989 کو اسلام آباد سے گلگت جانے والا ایک فوکر طیارہ اس روز اپنی منزل پر نہ پہنچ سکا۔کئی سال گزر جانے کے باوجود طیارے کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
طیارے میں 54 مسافر سوار تھے۔28 ستمبر 1992 کو پی آئی اے کا اے 300 طیارہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے وقت گر کر تباہ ہو گیا۔حادثے میں 167 افراد شہید ہوئے۔19 فروری 2003 میں پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کا فوکر ایف 27 طیارہ کوہاٹ کے نزدیک پہاڑی سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں اس وقت کے فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر، ان کی اہلیہ اور 15 دیگر افراد شہید ہوئے۔10 جولائی 2006 کو ملتان سے لاہور جانے والا فوکر طیارہ اُڑان بھرتے ہی کچھ دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثے میں عملے کے اراکین سمیت 41 افراد شہید ہوئے۔28 جولائی 2010 میں کراچی سے اسلام آباد آنے والا ایئر بلو کا طیارہ خراب موسم کے باعث لینڈنگ سے کچھ دیر قبل ہی مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ حادثے میں 152 افراد ہلاک ہوئے۔
بعدازاں تحقیقات میں حادثے کا ذمہ دار پائلٹ کو ٹھہرایا گیا۔05 نومبر 2010 کو کراچی میں نجی آئل کمپنی کے انجینئرز اور مسافروں کو کراچی لے جانے والا چارٹرڈ طیارہ ٹیک آف کے چند لمحوں بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے نتیجے میں 21 افراد شہید ہوئے۔20 اپریل 2012 کو پاکستان میں ری لانچ ہونے والی نجی ایئر لائن بھوجا ایئر کی کراچی سے اسلام آباد جانے والی افتتاحی پرواز ہی حادثے کا شکار ہو گئی۔ یہ طیارہ بھی لینڈنگ سے کچھ دیر قبل راولپنڈی کے مضافاتی گاؤں میں گر کر تباہ ہوا۔ طیارے میں سوار 152 مسافروں سمیت عملہ شہید ہو گیا۔ خراب موسم کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔07 دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد جانے والا اے ٹی آر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔
اس حادثے میں مذہبی اسکالر جنید جمشید سمیت 48 افراد شہید ہو گئے۔ان تمام حادثات کے بعد یہ 22 مئی 2020 کا یہ بدنصیب طیارہ حادثہ ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ حادثات کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں مگر ہر بار درد ہیں جو وہی ایک جیسے رہتے ہیں جو لواحقین کو اٹھانے پڑتے ہیں۔22 مئی کے بدنصیب طیارہ حادثے کی سب سے بڑی بدنصیبی اسکے پائلٹ سجاد گل کے ساتھ اپنایا جانے والا رویہ اور سلوک ہے مجھے نہایت دکھ ہوا جب میں نے مسافروں کے تابوتوں جیسا پاکستانی پرچم پائلٹ سجاد گل کے تابوت پر نہ دیکھا بہر حال جب سوشل میڈیا پر بے انتہا شور مچا تو تابوت پر پاکستانی پرچم بھی آیا اور حکومتیں وفد بھی انکے والد سے تعزیت کیلئے گھر پہنچے۔
مگر انکے بچے اداس ہیں وہ ایک بہادر پائلٹ تھے انہوں نے کوشش کی یا نہیں ابھی یہ سب سوالیہ نشان ہے تمام سوالات کے جوابات سے پہلے انکے ساتھ سخت رویہ ہر محب وطن کو تکلیف دے رہا ہے تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے ان پر تنقید یا قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں اور نا ہی سارا الزام صرف پائلٹ پر ڈال دینا درست ہے۔حادثے کی مکمل اور شفاف انکوائری لازمی کی جائے طیارہ حادثہ میں معجزاتی طور پربچ جانے والے دو مسافروں کے بیانات بھی تحقیقات میں مدد دے سکتے ہیں۔طیارہ حادثہ میں معروف شاعرہ ہما بیگ کے صاحبزادے وحید بیگ بھی شہید ہوئے اور انکی باڈی کی شناخت 31 مئی کو کر کے اہل خانہ کے حوالے کیا گیا۔پاکستان فیشن انڈسٹری کی معروف ماڈل زارا عابد جو کہ لاہور اپنے تایا کی تدفین کیلئے گئی تھیں وہ بھی اپنے گھر واپسی سے پہلے اس بدنصیب حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئیں اور عید الفطر کے دن انکی شناخت کے بعد تدفین کی گئی۔
جبکہ معروف سینئر صحافی اور ایم پی رعنا انصار کے شوہر انصار نقوی جو کہ عید کی چھٹیوں پر گھر آرہے تھے وہ بھی اس حادثے کی زد میں آکر اپنی زندگی کھو بیٹھے اور انکی تدفین 30 مئی کو کی گئی اسی طرح پولانی فیملی کے زین پولانی اور انکی اہلیہ کی بھی تدفین کر دی گئی مگر انکے تین معصوم بچوں کا تاحال پتہ نہ چل سکا۔ایک اور بدنصیب جوڑا شناخت کے بعد لحد میں اتار دیا گیا مگر انکے دو معصوم بچوں کی شناخت نہ ہو سکی۔سماجی کارکن فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ لوگوں نے حادثے کے بعد زبردستی کچھ لاشیں لے جانے کا مطالبہ کیا اور سیکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے وہ توڑ پھوڑ کر کے بغیر شناخت کے نعشیں لے گئے۔
اس واقعے کے بعد کچھ لواحقین نے روتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغامات جاری کیے اور حکام بالا سے اپیل کی کہ انکے پیاروں کی نعشیں انکے حوالے کی جائیں تاکہ وہ انکو لحد میں اتار کر سکون پا سکیں۔ایک لاچار اور بے بس ماں نے وزیر اعظم عمران خان سے روتے ہوئے مطالبہ کرتے ہوئے ویڈیو جاری کی اور رحم کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے پیاروں کا کوئی ایک کان کوئی ایک حصہ ڈھونڈ رہے ہیں ہم اپنے بچوں کیلئے در بدر گھوم رہے ہیں کوئی کمیٹی کوئی راستہ بنائیں۔طیارہ حادثہ کے ہر گھر کی ایک دردناک اور دکھ بھری داستان ہے پہلے دن سے جو بات سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ قیادت کی کمی تھی ہمیشہ کی طرح وفاق اور صوبہ کی حکومت نے مل کر مظلوم عوام کو پیس ڈالا کسی نے بھی کوئی باقاعدہ کمیٹی یا فوری ایمرجنسی سینٹر قائم نہیں کیا جہاں لوگ رابطہ کر سکتے بلکہ لوگ اپنے پیاروں کیلئے کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں گھومتے رہے اور اس مشکل وقت اور درد کے ہم جیسے پاکستانی گواہ ہیں۔
جب اپنے پیاروں کیلئے تڑپتے ہوئے لوگوں کے ساتھ سرکاری عہدوں پر فائز لوگوں نے تعاون کے بجائے بدتمیزی کی۔ دل ٹوٹے ہوئے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انکے زخموں پر نمک چھڑکا۔میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان سمیت چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعلی’ سندھ مراد علی شاہ سے درخواست کرتی ہوں کہ ایسے سانحات کے بعد فوری کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو عوام کو دشواری سے بچائیں۔
نا یہ طیارہ حادثہ پہلا ہے نا آخری مگر اب بھی وقت ہے مکمل تحقیقات کے ذریعے طیارہ حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔میری تعزیت طیارہ حادثہ کے تمام شہداء کے لواحقین سے ہے۔ہمارے جیسا ہر سچا پاکستانی دعا کرتا یے کہ ایسا کوئی حادثہ اب مستقبل میں رونما نہ ہو حکام بالا سے اپیل ہے کہ طیارہ حادثہ شہداء کے لواحقین کی تذلیل نہ کی جائے اور انکے آنسوؤں کامداوا کیا جائے۔