قائداعظمؒ کا عید کے موقع پراصلاحی پیغام

عید مسلمانان عالم کے لئے بلاشبہ ایک ایساتہوارہے ۔جس کی اہمیت وافادیت سے انکارنہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک ایسی اسلامی سالانہ تقریب سعیدہے جونہ صرف مذہبی لحاظ سے اہم ہے بلکہ یہ سماجی ،ثقافتی ،اقتصادی اورسیاسی اہمیت کی بھی حامل ہے ۔اسلام چونکہ ایک مکمل دین ہے اس میں خوشی اورغمی کے موقع پرمکمل تعلیمات موجودہے عید بھی باقی اسلامی تقاریب کی مانند دنیوی اموراور اخروی سعادتوں کا حسین امتزاج لئے ہوئے ہے علماء کرام اورمذہبی قائدین عید کے موقع پرقوم کے سامنے اسلامی تعلیمات پر مواعظ اورنصائح فرماتیں ہیں۔

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ چونکہ ایک سیاسی قائدتھے مگر اسلام سے نہ صرف واقفیت کے حدتک تعلق رہابلکہ وہ اس سرزمین پر مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کانفاظ چاہتے تھے (تفصیل کے لئے محمدعلی جناح ایک اسلامی مطالعہ مصنف نوراللہ رشیدی کامطالعہ کریں) قائداعظمؒنے عیدکے موقع پرجوتقاریراورقوم کے نام جوپیغامات جاری فرمائیں ان تقاریر اورپیغامات میں سے چند کے اقتباسات ملاحظہ کریں ۔18اگست 1947؁ء کوپاکستان کی پہلی عیدالفطرکے موقع پرفرمایا:

“میں عید کے اس مبارک موقع پرتمام مسلمانوں کو پرُمسرت موقع پر عید مبارک کہتا ہوں چاہے جہاں کہیں بھی دنیا میں موجود ہوں۔ایک ایسی عید جو ایک نئے دور کو راہ دکھائے گی۔میں خوشخالی کے ایک نئے زمانے کی امید کرتا ہوں اور یہ اسلامی تہذیب و تصورات کی نشاۃ ثانیہ کے دوران قافلے کا نشان ہو گا”:

اکتوبر1942؁کو عید الفطر کے ایک جلسے سے خطاب میںآپؒ نے فرمایا:

“ہمیں آج عید الفطر کے اس عظیم اور مبارک دن میں اپنے صحیح مقام کو قائم کرنے اور مستقبل میں دنیا کے لیے نئے دستور کا سنجیدہ عہد کرنا ہے۔جو اسلامی ورثے کی روشنی کے مطابق ہوـ۔”

نومبر 1939؁کو عید الفطر کے موقع پر بمبئی کے مسلمانو ں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

“ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیاس تھا بلکہ ہم یہاں ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔”

19 اکتوبر 1941کو بمبئی میں عید الفطر کے موقع پر فرمایا:

“میں مسلمانوں کو پر مسرت عید سعید مبارک کہتا ہوں۔ماہ رمضان ،روزہ داری،عبادت اور اللہ تبارک تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا مہینہ ہے۔اسی ماہ میں قران کریم کا نزول ہوا۔بنیادی طور پر یہ مسلمانوں پر ایک روحانی نظم قائم کرتا ہے۔لیکن اس فریضہ کی ادائیگی کے جلو میں جو اخلاقی نظم و ضبط اور اس کے جو معاشرتی اور جسمانی فوائد آتے ہیں وہ بھی کچھ کم نہیں۔یہ آپ کو بتاتا ہے کہ بھوک کے کیا معنی ہیں۔یہ آپ کو سبق دیتا ہے کہ آپ کو تکلیف اٹھانے کے لئے تیار رہنا چاہیے اور ادائیگی فرض کے تعلق کڑی آزمائش سے گزر جاتا ہے ۔یہ سبق پورے مہینے روز بروز دہرایا جاتا ہے۔

اس ورزش سے زندگی کے اخلاقی جسمانی اور روحانی شعبوں میں کچھ کم تر درجے کی ترقی نہیں ہوتی۔ یہ آ پ کو یہ محسوس کرنے کی اہلیت بخشا ہے کہ آپ خوراک یا بھوک کے غلام نہیں بلکہ آپ کو اسکا آقا ہونا چاہیے۔اس کی جسمانی قدوقیمت کو بھی کچھ کمتر نہیں گردانا جاسکتا ۔کیونکہ پورے مہینے تک جسد انسانی کے نظام ہضم کو جو آرام دیا جاتا ہے وہ اسے اسی طر ح اضافی صحت اور توانائی عطا کرتا ہے جس طرح خالی زمین کو آرام کے زریعہ زیادہ پیداواری صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ جسم کے تمام اعضاء کی اس طرح سے تخلیق کی گئی ہے کہ آرام سے ان کی کام کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور نظام ہضم کی جس قدر بہتر صلاحیت کار ہو گی اتنا ہی انسان کی جسمانی نشوونما بہتر ہوگی۔1945؁کوعیدالفطرکے موقع پرفرمایا:

“مذہبی تقریبات سے لے کرروزہ مرہ زندگی کے معاملات تک ،روح کی نجات سے جسم کی صحت تک ،ایک فردکے حق سے لے کرتمام افرادکے حقوق تک،اخلاقیات سے لے کرجرم وسزاتک،اوردنیاکی سزاجزاسے لے کراخروی سزاوجزاتک اسلام ہرمعاملے کی پابندی کرتاہے”۔

مندرجہ بالابحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برصغیرکے مسلمانوں کی یہ تحریک جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیاایک کلی سماجی تبدیلی کی تحریک تھی جس نے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کوبدلنے کے لیے سماجی تبدیلی کی صرف مادی بنیادیں ہی نہیں بلکہ فکری اورروحانی بنیادیں بھی فراہم کیں ۔قائداعظمؒ کے نزدیک تحریک پاکستان کا مقصدنہ تو مغربی سیکولرنظریہ کی بنیاد پر ریاست کاقیام تھا اور نہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے محض سیاسی آزادی کاحصول ،بلکہ مطالبہ پاکستان کااصل منشاء ایک ایسے آزاد خطے کاحصول تھاجہاں برصغیر کے مسلمان نہ صرف یہ کہ اپنی نجی زندگی میں اسلامی اصولوں کی پیروی کرنے میں آزادہوں بلکہ اپنے اجتماعی ،معاشرتی ،سیاسی اورمعاشی ڈھانچے کو بھی اسلامی نظریہ کے مطابق متشکل کرنے میں آزاد ہوں۔بانی پاکستان ہمیشہ قرآنی ضابطہ حیات کی ہمہ گیر اہمیت وافادیت کے معترف تھے ۔وہ قرآنی احکام کوپاکستان کی اساس بنانے کے زبردست حامی تھے۔

علاوہ ازیں وہ قیام پاکستان کو مسلمانوں کی شاندار روایات اور اسلاف کے زرین کارناموں کے تحفظ کا ایک ذریعہ خیال کرتے تھے ۔انھوں نے 4اپریل 1943؁ کوشمال مغربی سرحدی صوبہ کے طلباء کی فیڈریشن میں تقریرکرتے ہوئے فرمایا،تم لوگوں نے مجھ سے پیغام دینے کی خواہش کی ہے ۔میں تمھیں کیاپیغام دے دسکتاہوں ۔قرآن حکیم میں ہماری راہنمائی اور ذہنی جلا کے لیے عظیم ترین پیغام موجودہے ۔آئیے ہم اس عظیم نصب العین کوعملی جامہ پہنائیں آئیے ہم اپنی خدادادصلاحیتوں کو صحیح سمت میں استعمال کریں ۔24اکتوبر1947؁کوپاکستانیوں کوپیغام عیددیتے ہوئے فرمایا:

“خداجن لوگوں سے محبت کرتاہے ان کو آزمائش میں ڈالتاہے اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمائش میں ڈالا اور آپ کامیاب رہے آج بھی اللہ تعالی پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کاامتحان لے رہاہے اگرہم نے بھی قربانی کاوہی جزبہ پیش کیا جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح تھاتواللہ تعالی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ہم پر بھی اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا” ۔

14فروری 1948؁کوسبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ:

” پاکستان کاسیاسی نظام اسلام کے بنیادی لازمی اصولوں پر مشتمل ہوگا اسلامی جمہوریت کے اصول بیان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا۔میراایمان ہے کہ ہماری نجات کاواحدذریعہ اس سنہری اصولوںوالے ،ضابطہ حیات ،پرعمل کرناہے جوعظیم پیغمبر اسلامﷺ نے ہمارے لئے قائم کررکھاہے ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اورتصورات پررکھنی چاہئیں “۔

30اکتوبر1947؁کوایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے لاہورمیں کہا:

“اگرہم ہرمعاملے میں تحریک اوررہنمائی قرآن مجید سے حاصل کریں تومیں ایک بار پھرکہوں گا کہ آخری کامیابی ہماری ہوگی ،ہماری اورفقط ہماری ۔6اگست 1947؁کوعیدالفطرکے موقع پرفرمایا:

“برادرمسلم ملکوں کے لئے میراپیغام عید،دوستی اوراخلاص کاپیغام ہے۔ہم سب قیامت خیز خطرناک دورسے گزررہے ہیں ۔سیاسی اقتدار کاجوڈرامہ فلسطین ،انڈونیشیااورکشمیرمیں کھیلاجارہاہے اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں ۔دنیاکے ایوانوںمیں ہماری آواز صرف اسی وقت سنی جائے گی جب ہم ایک متحدہ محاذقائم کرلیںگے تحریک پاکستان کے کارکن سیدبدرالدین احمدنے 26نومبر 1946؁کوقائداعظم سے پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے پوچھا ۔اس کے جواب میں قائداعظم نے فرمایا:

” مسٹربدرمیں مطمئن ہوں کہ قرآن وسنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان )دنیا کی بہترین اور مثالی ریاست ہوگی ۔یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم ،کمیونزم ،مارکزم ،کیپیٹل ازم کا قبرستان بن جائے گا جس طرح کہ سرورکائنات ﷺ کامدینہ اس وقت کے تمام نظام ہائے فرسودہ کاگورستان بناپھر فرمایا مسٹربدر خوب یاد رکھو دنیا کی تمام مشکلات کا حل اسلامی حکومت کے قیام میں ہے (یہ تحریر قائداعظم تقاریراز اقبال صدیقی ،جہان قائداعظم ازپروفیسرشریف بقا،محمدعلی جناح ایک اسلامی مطالعہ ازنوراللہ رشیدیقائداعظم ایک ہمہ گیرشخصیت ازمحمدعثمان جان سے ماخوذہے)

جواب چھوڑ دیں