گزشتہ دنوں ایک روح فرسا،انتہائی غمناک اور دردناک واقعہ پیش آیا، اور اس واقعہ کی خبر عالمی نشریاتی اداروں اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی نمایاں طورپر نشر کی گئی ۔ امت مسلمہ اور پاکستان کے علماء اور دیندار طبقہ کی جانب سے اس واقعہ کی بھرپور مذمت ہوئی ، اور اسمبلیوں میں اس پر قراردادِ مذمت بھی جمع کرائی گئی ہے۔یہ واقعہ خیرالتابعین ،عمر ثانی، خلیفہ راشد ،امیرالمؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ،ان کی نیک سیرت اوربلند کردار کی مالکہ زوجہ محترمہ فاطمہ بنت عبدالملک اور ان کے خادم خاص شیخ ابو زکریا بن یحیی المنصور کی قبروں اور ان کے اجساد کی بے حرمتی کا واقعہ ہے۔یہ واقعہ ملک شام کے صوبہ ادلب میں پیش آیا، اور چند اسلام دشمن ،شرپسند ،بدبخت اور شقی لوگوں نے ان کے مزار کو نشانہ بنایا اور نشر ہونے والی خبروں کے مطابق ان کے اجساد کی بھی سخت بے حرمتی کی ہے۔اس سفاکانہ عمل سے معلوم ہوتاہے کہ ایسے لوگوں کو دین سے ، اسلام سے اور انسانیت سے دور کابھی واسطہ اور تعلق نہیں ہے،ایسے افراد انسانوں کی صورت میں وحشی درندے اور خونخوار بھیڑیے ہیں ،کہ ان کے شر سے نہ زندہ انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی تیرہ صدیاں قبل دنیا سے رخصت ہونے والے نیک سیرت اور تاریخ کے روشن کردار افراد محفوظ ہیں ۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒاسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں ، جن کی خلافت نے خلافت راشدہ کا نمونہ پیش کیا، اور جن کے عدل و انصاف کی نظیر بعد کے زمانوں میں نہیں ملتی ، ان نام اور کردار ان شاء اللہ تاقیامت بلند اور روشن رہے گا، ان کی عظمتیں مسلمانوں کے قلوب سے ختم نہیں ہوسکتیں ۔ہمارے دین میں قبروں کی یامردوں کی بے حرمتی کی کوئی اجازت نہیں ۔ قبروں کوعبادت گاہ بنانے کی اجازت نہیں ، مگر قبروں کی حفاظت اور احترام لازم قراردیاگیا ہے، اور کوئی بھی ایسا عمل جس کی وجہ سے قبروں کی یا مردوں کی بے احترامی ہو اس سے منع کیاگیاہے۔چنانچہ احادیث میں رسول اللہؐ نے قبروں پر چلنے ، بیٹھنے، انہیں تکیہ بنانے سے سخت منع فرمایاہے۔یہ بھی بتایاگیا ہے کہ مردے کو تکلیف دینا ایساہی ہے جیساکہ آپ اسے زندگی میں تکلیف دے رہے ہوں ، میت کی ہڈی کو توڑنا ایساہی ناجائز ،حرام ،ظلم اور زیادتی ہے جیساکہ وہ زندہ ہواور ا س کے ساتھ یہ معاملہ کیاجائے۔مومن کو مرنے کے بعد تکلیف دینا ایساہی ہے گویااسے اس کی زندگی میں تکلیف دی جارہی ہو۔ان دینی تعلیمات سے معلوم ہواکہ یہ وحشیانہ عمل وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کا دین سے ، اسلام سے اور انسانیت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہو، بلکہ وہ انسان نما درندے اور بھیڑیے ہوں ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒمصر کے شہر حلوان میں، اور ایک قول کے مطابق مدینہ منورہ میں 61ہجری میں پیدا ہوئے، آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے،آپ کا ننھیال مدینہ منورہ میں ہی آباد تھا، جس زمانہ میں ان کی والدہ مدینہ میں قیام پذیر تھیں یہ عمربن عبدالعزیزؒ کے بچپن کا زمانہ تھا، بچپن میں عمر بن عبدالعزیزؒ کی آمد و رفت حضر ت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے پاس بکثرت رہتی تھی، بعدازاں عمربن عبدالعزیزؒ مصر چلے گئے اور وہاں ایک مدت تک رہے۔ پھر مدینہ آمد ہوئی اور وہاں بعض صحابہ کرام اور اکابر تابعین سے علوم کی تحصیل کی اور رسول اللہؐ کی احادیث نقل فرمائیں ۔ جوانی میں قدم رکھا اور بیس سال کی عمر کو پہنچے تو آپ کے چچا خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنی صاحبزادی فاطمہ کو آپ کے عقد میں دے دیا،ربیع الاول 87ہجری میں ولید بن عبدالملک کی خلافت کے زمانہ میں آپ کو مدینہ طیبہ کا حاکم مقرر کیاگیا،آپ نے اس عرصہ میں مسجد نبوی کی توسیع کاکام کیااور ازواج مطہرات کے حجرے مسجد نبوی میں شامل کیے ،نیز مدینہ کے اطراف کی مساجد کو منقش پتھروں سے تعمیر کرایا۔اسی زمانے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ عراق سے مدینہ تشریف لائے ، انہوں نے عمربن عبدالعزیزؒکو نماز اداکرتے دیکھا تو انہیں عمربن عبدالعزیزؒکی کیفیت اتنی پسند آئی کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا:رسول اللہ ؐ کے بعد میں نے کسی امام کے پیچھے نمازنہیں پڑھی جس کی نماز آنحضرتؐ کی نماز سے اتنی مشابہت رکھتی ہو جتنی کہ تمہارے اس امام کی ۔ایک جلیل القدر اور رسول اللہؐ کے خادم خاص صحابی کی جانب سے یہ بہت بڑی شہادت ہے۔
ولید کی جانب سے عمربن عبدالعزیزؒکو 93ہجری میں معزول کردیاگیاتھا، ولید بن عبدالملک کے انتقال کے بعد ان کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنے ، انہوں نے عمربن عبدالعزیزؒکو اپنا خصوصی وزیر اور مشیر بنایا، اور سلیمان بن عبدالملک نے اپنے بعد عمربن عبدالعزیزؒکو خلافت کے لیے نامزد کیا اور لوگوں کو حکم دیاکہ عمربن عبدالعزیزؒکے ہاتھ پر بیعت کرلیں ۔ عمربن عبدالعزیزؒنے خلافت کا بار اٹھاتے ہی جو فوری فیصلے فرمائے وہ عدل و انصاف کے قیام کے فیصلے تھے ، انہوں نے ابتدائی فرامین میں ہی بعض ایسے لوگوں کو معزول کیاجنہوں نے عوام پر ظلم و ستم ڈھائے ہوئے تھے، اس سے معلوم ہوتاہےکہ اقتدار کی بقاء اور عوامی دلوں پر حکمرانی عدل وانصاف کے ساتھ مربوط ہے۔آپ نے خلیفہ بنتے ہی زہد وقناعت کی زندگی اختیار کی اور انواع واقسام کے کھانے اور مشروبات یکسر ترک کردیے ، آپ کے لیے عام رعایا کے کھانوں کی مانند کھانا تیار ہوتا اور کسی چیز میں ڈھک کررکھ دیاجاتا جب مصروفیات سے فارغ ہوتے تو خود ہی تناول فرمادیتے ، اس سے زیادہ کوئی اہتمام نہ ہوتاتھا۔ بیت المال سے جو وظیفہ ایک عام آدمی کو ملتا تھا وہی عمربن عبدالعزیزؒنے اپنے لیے بھی اختیار کیا اس سے زیادہ کچھ نہ لیتے تھے ،بیت المال کو تمام رعایا کا حق سمجھتے تھے اور ذرا برابر اس کی اشیاء کو اپنے استعمال میں لانے کے حق میں نہ تھے، حتی کہ بیت المال کی خوشبوسونگھنے کو بھی پسند نہ کرتے تھے ۔آپ کی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک فرماتی تھیں میں نے عمربن عبدالعزیزؒسے زیادہ کسی کو اللہ کے خوف سے کانپتے نہیں دیکھا، جب وہ اپنے بستر پر اللہ کی یاد میں مصروف ہوتے تو چڑیا کی طرح پھڑپھڑانے لگتے، یہاں تک کہ ہمیں اندیشہ ہوتا کہ ان کا دم گھٹ جائے گا۔سادگی کا یہ حال تھا کہ ایک ہی کرتا استعمال کرتے ، ایک دن جمعہ کی نماز کے لیے ذرا دیر ہوگئی،لوگوں نے اعتراض کیا تو عمربن عبدالعزیزؒنے فرمایا:میں نے اپنی قمیص دھوئی تھی ، اس کے سوا کوئی کپڑا موجود نہ تھا اور اس کے سوکھنے کے انتظار میں مجھے دیر ہوگئی۔
آپ نے جو حالت اپنے لیے پسند کی وہی اپنے گھرانےا ور اپنی اولاد کے لیے پسند کی ، اور خلیفہ وقت ہونے کے باوجود اپنی اولاد اور گھرانے کوان کے حق سے زیادہ کچھ نہیں دیا، مسلمانوں کے اموال سے جس طرح خود دور رہے اپنے اہل وعیال کو بھی دور رکھا، زہد وقناعت خود اختیار کی اور گھرانے کو بھی اسی کی تعلیم دی، ان کی صاحبزادیوں سے متعلق ایک عجیب واقعہ ان کی سیرت میں لکھا گیا ہے کہ ایک رات عشاء کے بعد اپنی صاحبزادیوں سے ملاقات کے لیے پہنچے ،انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور دروازے کی جانب لپکیں ، عمربن عبدالعزیزؒنے وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ شام کے کھانے میں مسورکی دال اور پیاز کے سوا کچھ نہ تھا اسی سے انہوں نے اپنا پیٹ بھراہے، ان کو یہ گوارانہ ہواکہ ان کے منہ کی بو والد محسوس کریں ، حضرت عمربن عبدالعزیزؒروپڑے اور فرمایا:میری بیٹیو !تمہیں اس سے کیا نفع ہوگا کہ تم رنگارنگ کے کھانے کھاؤ اور تمہاے باپ کو پکڑ کر دوزخ میں لے جایاجائے۔یہ کہہ کر عمربن عبدالعزیزؒواپس پلٹے اور صاحبزادیوں کی روتے روتے چیخیں نکل گئیں۔آپ کی ایک صاحبزادی نے ایک بار آپ کے پاس ایک موتی بھیجا اور کہا کہ اس کے ساتھ کا ایک اور موتی اگر بیت المال سے مل جائے تومجھے دے دیں، میں اپنے کانوں میں ڈال دوں ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس فرمائش کو دیکھا تو دو انگارے بھیج دیئے اور فرمایااگر ان کو کانوں میں پہن سکتی ہوتو دوسرا موتی بھیج دوں گا۔اندازہ کیجیے کہ خلیفہ وقت بیت المال سے اپنی صاحبزادی کو ایک موتی بغیرحق کے دینے کو تیار نہیں ہیں ۔
خلافت کے امور میں عمربن عبدالعزیزؒکے تین معاون اور مددگار تھے ، ایک آپ کے بھائی سہل بن عبدالعزیز، دوسرے آپ کے صاحبزادے عبدالملک بن عمربن عبدالعزیز اور تیسرے آپ کے خادم مزاحم ، ان تینوں کا انتقال آپ کی حیات میں ہوگیا، اور آپ ان کے انتقال سے سخت مغموم ہوئے، کچھ عرصہ ہواتھا کہ آپ مرض الوفات میں مبتلاہوئے تو اللہ سے عافیت کی موت کی دعا کی ، مرض الوفات میں اپنے نوعمر بچوں کو بلایا، انہیں دیکھ کر عمربن عبدالعزیزؒکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا:میں قربان جاؤں ، یہ بے چارے نوعمر ہیں ، جنہیں خالی ہاتھ چھوڑ کر جارہاہوں ، لیکن میرے بیٹو!میں تمہارے لیے بہت سی خیر چھوڑکر جارہاہوں ، میں دوراہے پرکھڑا تھا، یا تم مالدار ہوجاتے (یعنی ناجائز دولت تمہارے لیے اکٹھی کی جاتی )اور میں جہنم کا ایندھن بن جاتا، یاتم ہمیشہ کے لیے فقیر وقلاش ہوجاتے اور میں جنت میں چلاجاتا،میرے خیال میں میرے لیے یہی دوسرا راستہ بہتر تھا،جاؤ!اللہ تمہارا حافظ ونگہبان ہو، جاؤ!اللہ تمہیں رزق دے گا۔ عمربن عبدالعزیزؒنے ترکہ میں فقط سترہ دینار چھوڑے تھے جن میں سے سات دینار کفن دفن میں خرچ ہوئے اور دس دینار اولاد میں تقسیم ہوئے، لیکن اللہ نے عمربن عبدالعزیزؒکے زہد وقناعت ، اولاد کے لیے حلال روزی کی دعا اور حلال پر اکتفاء کے جذبہ کی ایسی لاج رکھی کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒکی اولاد میں سے ایک شخص ایک دن میں اللہ کے راستے میں سوگھوڑوں کا عطیہ دیتا ہوا دیکھاگیا۔اور جن لوگوں کے اقتدار کے زمانہ میں لوگوں کا حق اپنی اولادوں کے لیے سمیٹا وہ ایسے لاچار ہوئے کہ ان کی اولادوں کو لوگ غربت کی وجہ سے صدقہ دیاکرتے تھے۔
عمربن عبدالعزیزؒکے انتقال کا وقت قریب ہوا تو آپ کی زبان پرسورہ قصص کی یہ آیت کریمہ جاری تھی جس کا ترجمہ ہے :یہ عالم آخرت ہم ان ہی لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ فساد ، اور نیک نتیجہ متقی لوگوں کو ملتا ہے۔پھر آپ اس دنیاسے وصال فرماگئے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒدو سال چار ماہ اور چند دن خلیفہ رہے،رجب 101ہجری میں آپ کا وصال ہوا۔آپ نے فقط چالیس سال کی عمر پائی۔ آپ نے اپنی خلافت کے زمانے میں ظلم وستم کا خاتمہ کیا،اللہ زمین کو عدل وانصاف سے بھردیا، تمام لوگوں کو ان کے حقوق مکمل طور پردیئے، عوام کو اور حکام کو کتاب وسنت کی پابندی کا حکم دیا۔ بیت المال سے مقروضوں کے قرض ، کنواروں کی شادی ، اور ذمیوں کی دیکھ بھال میں اموال خرچ کرنے کا حکم دیا۔ہر شخص ان کی خلافت کے زمانہ میں اتنا خوشحال ہوگیا تھا کہ صدقہ وزکوۃ لینے والاڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا تھا، آپ کی خلافت کے زمانہ میں یحیی بن سعید افریقہ گئے ، وہاں صدقات وصول کیے اور پھر انہیں فقراء پر تقسیم کرنے کے لیے غریبوں کو تلاش کرنا شروع کیا لیکن کوئی شخص صدقہ لینے والا نہ مل سکا، بالآخر اس رقم سے غلام خرید کر آزاد کیے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ اسلامی تاریخ کے مایہ ناز خلیفہ ،مسلمان کے بے نظیر عادل حاکم اور خداترس حکمران تھے ، ان کی محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے، اور انکا ذکر خیر ہمارے لیے رحمتوں ، سعادتوں ،برکتوں اور فلاح کا باعث ہے۔اسی لیے امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے تھے کہ :جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جس کے دل میں عمر بن عبدالعزیز ؒ سے محبت کا جذبہ موجود ہو، اور ساتھ ساتھ وہ شخص عمر بن عبدالعزیزؒ کی اچھائیاں اور خوبیاں بیان کرتا ہوتو ایسے شخص کے بارے میں یقین کرلو کہ اس کا انجام خیر وبرکت والاہوگا۔آج بھی مسلمانوں کےدل میں عمر بن عبدالعزیزؒ کی عظمت واحترام باقی ہے۔تاریخ کی کتب سے معلوم ہوتاہے کہ عباسی حکومت کے زمانہ میں انہوں نے بنوامیہ کے حکمرانوں کی قبروں کے ساتھ بے احترامی کامعاملہ کیاتھا لیکن عمربن عبدالعزیزؒ کی قبر کو اس زمانے میں بھی ان کی نیک نامی ،زہد وعفت ، اور عدل وانصاف کی حکمرانی کی بناء پرکسی نے نہیں چھیڑا، مشہور قبروں کے نشانات فناہوگئے تھے لیکن عمربن عبدالعزیز کی قبر سرافتخار بلند کرکے کھڑی رہی اور آج تک یہ احترام باقی رہا، اب کچھ وحشیوں نے جن کے دل ظلمت اور کدورت سے بھرے ہوئے ہیں ان کی قبراور ان کے اجساد کی بے حرمتی کرکے اپنی دنیاوعقبیٰ کی بربادی پر مہر ثبت کردی۔اللہ ایسے بدبختوں کے شر سے امت کومحفوظ فرمائے ،ا ور عمربن عبدالعزیزؒان کی اہلیہ اور خادم کو اپنی رحمت ورضوان میں خصوصی مقام نصیب فرمائے۔آمین
بہت عمدہ تحریر ہے معلوماتی کے ساتھ ساتھ عقیرت و احترام میں گندھی ہوٸ۔