رمضان المبارک کے الوداعی جمعتہ المبارک کے روز دوپہر دو بج کر 25 منٹ پر لاہور سے کراچی آنے والا پی آئی اے کا طیارہ ایئربس اے 320 ہوائی اڈے کے قریب واقع جناح گارڈن نامی آبادی پرگر کر تباہ ہوگیا اور ساری قوم کو سوگوار کر گیا۔ بلاشبہ پاکستانی قوم شہید ہونے والے اہل خانہ کے غم میں برابر کی شریک ہے، اور خدائے بزرگ و برتر کے حضور دعا گو ہے کہ اللہ رب العزت لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
اگر ہم غور کریں تو طیارہ حادثہ کے دو پہلو ہیں: یہ بات اظہر من الشمش ہے کہ اس دنیا میں آنے والے ہر ایک فرد کو بہرحال جانا ہے ، خوش نصیب ہے وہ انسان جو اچھے انداز میں چلا جائے۔ حادثاتی اموات میں سب سےبہتر موت طیارہ حادثہ کی موت ہوتی ہے، کیونکہ جہاز کے علاوہ جوبھی ذرائع سفر ہیں ان میں اتنی اچانک موت ہوتی ہے کہ مسافر کو سمجھ ہی نہیں آتی اور وہ دارفانی سے کوچ کرجاتا ہے ، جبکہ گزرے دس سالوں میں فضائی سفر کے دوران کئی مرتبہ یہ مناظر دیکھنے کو ملے کہ جیسے ہی جہاز ناہموار ہوا ، مسافر اپنے مشاغل چھوڑ کر اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اس دوران اگر وقت رخصت بھی آجائے جیسا کہ 22 مئی کو فضائی مسافروں کے ساتھ ہوا تو بندہ اس حال میں رخصت ہوتا ہے کہ زبان پر کلمہ خیر، کلمہ استغفار ہوتا ہے ، اور اہل علم فرماتے ہیں کہ بندہ جس حال میں دنیا سےجاتا ہے اسی حال میں اٹھایا جاتا ہے، اور ایک آخری بات کی اللہ رب العزت ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، انسان ہمیشہ سے نہیں تھا، لیکن اب ہمیشہ رہے گا، شائد اسی لیے جب ہمارے ہاں کسی کی موت کا اعلان کیا جاتا ہے تو یہ کہاجاتا ہے کہ فلاں کا انتقال ہوگیا، یعنی فلاں اپنے موجودہ مقام سے، اس مقام پر منتقل ہوگیا، جس کے بارےمیں تاجدار مدینہ راحت وقلب وسینہ حضرت محمدؐ کا فرمان عالیشان ہے: (مفہوم) “قبر کو مٹی کا ڈھیر مت سمجھو، قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے”
بلاشبہ طیارہ حادثہ میں اس دارفانی سے کوچ کرنے والے تمام 97 مسافر خوش نصیب ہیں کہ وہ جنت کے باغ میں اقامت پذیر ہوں گے کیونکہ حادثاتی موت بھی شہادت کی موت میں شامل ہے۔ دوسری جانب حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت فضائی حادثہ کی تحقیقات کرواکر حقائق قوم کے سامنے لائے ، اور ذمہ داروں کے تعین کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا سدباب بھی کیا جائے جو اس افسوس ناک سانحہ کا سبب بنے، کیونکہ قیام پاکستان سے 22 مئی 2020 تک پاکستان کی فضائی حدود میں ملکی اور غیر ملکی 83 فضائی حادثات پیش آچکے ہیں۔ جبکہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو طیاروں کو چھوٹے بڑے 21 حادثات اور پاکستان ایئر فورس کے طیاروں کو مجموعی طور پر 24 حادثے پیش آئے ہیں۔
پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ اسلام آباد کے قریب 28 جولائی سنہ 2010 کو اس وقت پیش آیا جب نجی ایئر لائن ایئر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی۔ اس طیارے میں 152 افراد سوار تھے۔ اگر اب تک ہونے والے فضائی حادثات کی آزاد، شفاف، اور منصفانہ تحقیق کرواکر ذمہ داروں کے تعین کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا تدارک بھی کیاجاتا جو حادثات کا سبب بنے تو شائد حادثات میں کمی آسکتی تھی۔
قوم کو امید ہے جیسے محترم عمران خان صاحب نے دلیری کا مظاہر کرتے ہوئے آٹا چینی کے چوروں کا تعین کیا ہے ایسے ہی نہ صرف طیارہ حادثہ کے بارے میں حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں گے بلکہ ان عوامل کا تدارک بھی کیا جائےگا جو اس افسوس ناک حادثہ کا سبب بنے۔