نئی نسل کے ذہنی رجحان پر بھی توجہ دیجیے

پہلا منظرـــــــــــــ

حارث کی سالگرہ بس چند دنوں بعد ہی تھی نومبر کی پندرہ تاریخ کو دس سال کا ہو رہا تھا۔ حارث اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ احمد صاحب اپنے لاڈلے کو اس سالگرہ پر اس کے من پسند تحائف دینا چاہتے تھے۔ اسی غرض سے وہ اسے کھلونوں کی دکان پر لے گئے جہاں سے اسے مہنگے تحائف دلوائے۔ واپسی پر حارث بہت خوش تھا کیونکہ اس کے والد نے اسے کھلونا بندوقیں پلے اسٹیشن اور دیگر قیمتی کھلونے خرید کر دیے تھے۔

دوسرا منظرـــــــــــــ

ڈیوڈ کے والدین بہت خوش تھے کیونکہ آج اُن کے بیٹے نے اسکول میں نمایاں پوزیشن حاصل کی تھی جس کے بعد وہ ان سے کچھ  نئی کتابیں دلانے کی فرمائش کر رہا تھا۔ ڈیوڈ اپنے باپ کی دیکھا دیکھی اب کتابوں میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ یہ بات ڈیوڈ کے والدین کے لیے قابل اطمینان تھی کہ ان کا بیٹا صحیح راستے پر گامزن تھا۔

یہ دو فرضی مناظر ہیں، پر اگر ہم اپنے اردگرد کے حالات دیکھیں تو کیا یہ منظر حقیقی نہیں لگتے؟ ہم اپنی اولاد کو کیا دے رہے ہیں اور مغرب میں رہنے والا ایک والد اپنے بچے کی تربیت کیسے کررہا ہے۔ کھلونوں کی مارکیٹ میں ایک دکاندار سے بات ہوئی تو پتا چلا کہ عید یا کسی اور تہوار کے موقع پر ان کی ستر سے اسی فیصد سیل پستول اور بندوق بکنے سے ہوتی ہے۔ بچپن میں والد صاحب سے سنا تھا کہ کسی بھی گھر شہر یا ملک کا مستقبل دیکھنا ہو تو وہاں کے بچوں کے شوق دیکھ لو۔ آج مجھے بچوں کے شوق دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اور ملک کا مستقبل آنکھوں پر نظر کمزوری کا چشمہ لگائے، کانوں میں ہیڈ فونز ڈالے، ہاتھوں میں اسلحہ تھامے، ارد گرد سے بے خبر اپنی اپنی دنیا میں گم دہشت پھیلاتا نظر آرہا ہے۔

ہمارے بچے ہماری خوشیوں و شادمانیوں اور مسرتوں کے باغ کے پھول اور کلیاں ہیں۔ اس باغ کے لہلہاتے، گنگناتے اور مسکراتے غنچے ہیں۔ ان کی آبیاری، ہمہ وقت ان کی دیکھ بھال اور نگہبانی کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور یہ فرض ہمیں بالکل اسی طرح نبھانا ہے کہ جس طرح ایک باغبان اپنے باغ کے پھولوں کی باغبانی کرتا ہے۔ وقت پر پانی مہیا کرتا ہے، تراش خراش کرتا ہے، وقت پر ان کی پنیری لگاتا ہے، زمین کو نمو کے قابل بناتا ہے، کیڑے مکوڑوں اور سنڈیوں کے حملے سے بچاتا ہے اور انکی نزاکت، رعنائی و خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں اپنے گلشن کے پھولوں اور کلیوں کی بہترین پرورش کرنی ہے۔ تاکہ وہ تناور درخت بننے کے بعد نہ صرف اپنے لئے بلکہ ملک و ملت کے لیے بھی نیک نامی اور آخرت میں کامیابی کا سبب بنیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو والدین باغبان بن کر زندگی گزارتے ہیں اور اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرتے ہیں، ایسی اولاد ہی تیز دھوپ میں ان کے لیے گھنا سایہ بن کر فرحت و مسرت کا باعث بنتی ہے۔ اور پھر اپنے ربّ سے یوں دعا گو ہوتی ہے،

ترجمہ: اے ہمارے رب ہمارے والدین پر اپنی رحمت کی چادر ایسے تان دے جیسے انہوں نے ہمیں بچپن میں پالا اور پرورش کی۔۔

اور اگر ہم اپنی ساری توانائیاں بچوں کی بے جا فرمائشیں پوری کرنے میں لگا دیں اور ان کو ایک مفید شہری بنانے کے لئے جدوجہد نہ کریں تو یہ مستقبل کے معمار نا صرف خود پر بوجھ بنیں گے بلکہ ملک و ملت کے بھی کسی کام نہ آ سکیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج سے ہی اپنے بچے کو ایسی عادتیں اپنانے کی ترغیب دے جو پکی عمر میں پہنچنے کے بعد اس کے اخلاق، کردار اور زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن رکھ سکے۔

 

حصہ
توقیر ماگرے,جامعہ کراچی کے شعبہ بائیوٹیکنالوجی میں زیر تعلیم ہیں, حال ہی میں لکھنا شروع کیا ہے. شاعری سے لگاو ہے. معاشرتی مسائل, سیاست اور کھیل پرلکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ان سے اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے tauqeer.magray@gmail.com

جواب چھوڑ دیں