میں آپ سے ایک سوال پوچھوں کہ مناسب ماحول میں اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچادینا آسان ہے ناں…؟؟یقیناً آپ کہیں گے جی اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچادینا بہت آسان ہے..پر تبلیغ کا کام تو اللہ نے آزمائش کے لیے ہی رکھاہے..تو پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے اس راہ پر ہم چلیں اور کوئی سختی نہ ہو,کوئی پریشانی نہ ہو…سب کچھ سہل اور آسان طریقے سے ہوجائے یہ اللہ کی رحمت کے سوا ممکن ہی نہیں.. ورنہ یہ راہ مشکل بہت ہے وہ اس لیے کیونکہ اس راہ پر چلنے والوں کو بہت ستایا جاتا ہے جبھی ان کے پیروں پر لگنے والی مٹی بھی باعثِ اجر ہوتی ہے۔
تبلیغ جتنا اہم فریضہ ہے اتنا ہی مشکل کیوں ہے…؟ اللہ نے اپنےجن پیارے بندوں پریہ بھاری ذمہ داری ڈالی اور جنہیں اس عظیم کام کے لیےمنتخب کیاوہ بہت خاص لوگ ہیں…آئیے اس بارے میں تھوڑا سا ہم جان لیتے ہیں… ہوسکتا ہے میرا علم ناقص ہو مگر جو میں نے سمجھا ہے وہ میری اس تحریر کے ذریعے آپ تک پہنچ ہی جائے گا..انبیاء کرام کے جتنے واقعات میں نے قرآن میں پڑھے ہیں میں نے سمجھا اور یہ دیکھا کہ..میں نےجوسمجھا اگر آپ خود بھی ترجمعہ سے پورا قرآن پاک پڑھیں اور سیرت انبیاء پڑھیں تو یقیناً آپ مجھ سے بھی بہتر سمجھ سکیں گے وہ جس کا میں یہاں ذکر کررہی ہوں۔
اللہ سبحان وتعالیٰ نےاپنے ہر نبی وپیغمبر کو ایک ایسے ماحول میں اتارا ہے جہاں وہ مشکل ترین حالات سے لڑے لوگوں کے ستم سہہ کر ثابت قدم رہےوہ قتل کیے گئےبھوک وپیاس سے ستائے گئے قید وبند کی اذیت میں کئی سال تک رہے. مگر اللہ کی مشیت پر راضی رہتے ہوئے تبلیغ کا کام کرتے رہےاور استقامت اختیار کیے رکھی…..وہ اپنوں کے ہاتھوں ستائے گئے خون کے رشتوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے….حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جب ہم پڑھتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں…؟
ہمیں ایک اللہ کےنیک بندے نظر آتے ہیں جو اپنی قوم کو صرف اللہ کے حکم سے برے کاموں سے اورسود کھانے سے منع کرتے ہیں…تو ان کی قوم کیا کرتی ہے؟ایک ڈاکو جو سو قتل کرچکا ہوتا ہے اس کے حق میں فیصلہ کرتی یہ جانتے ہوئے کے یہ لٹیرا قاتل ہے مگر آپ علیہ السلام کے لیے پھانسی کا فیصلہ کرلیتی ہے..جی ہاں یہی وہ مشکل ماحول ہے جسے آزمائش کہا گیا ہے تاکہ پتا چل سکے کون اللہ سے ڈرنے والا ہے اور ثابت قدم رہنے والا ہے…
آپ علیہ السلام نے سب سہا اپنی ذمہ داریوں سے فرار نہیں ہوئے..اللہ کے خاطر سب برداشت کیا..قرآن میں سب سے زیادہ جس قوم کا ذکر ہوا وہ بنی اسرائیل ہے..آپ سب کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر فرعون کے ظلم سے آزادی تک کاسفر مشکل ترین آزمائش بھرا رہا تھا..آپ علیہ السلام جنہیں “کلیم اللہ”بھی کہا جاتا ہے . اللہ نے انہیں علیہ السلام کو فرعون جیسے ظالم وجابر بادشاہ کے سامنے لاکھڑا کیا آپ علیہ السلام جو زبان میں کچھ تکلیف کے باعث اللہ سے کہنے لگےمیرا مددگار میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو بنا دیجیے….اور اللہ نےبنابھی دیا.جو لوگ ثابت قدم رہتے ہیں اللہ اس راہ میں ان کا مددگار ہوتا ہے…..اور کامیابی ان کا مقدر بن کے رہتی ہے…
حضرت ابراہیم علیہ السلام جو “ابوالانبیاء”یعنی نبیوں کے باپ” بھی ہیں. سب سے پہلےجورشتہ آزمائش بن کر آپ علیہ السلام کے سامنے آیا وہ آپ علیہ السلام کے والد تھے..آپ علیہ السلام وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں ہے”بےشک میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں”ذرا دیکھیے بتوں کے ماحول میں رہنے والے بندے نے اللہ کو ڈھونڈ نکالا اور علی الاعلان کہا بھی اللہ وحدہ لاشریک ہے یہاں تک لوگ آپ علیہ السلام کی جان کے در پر آگئے پر آپ علیہ السلام ڈر کے اپنے قول سے پیچھے نہیں ہٹے..ایک مبلغ ,داعی الی اللہ کے لیے ایسے ہی آزمائشی ماحول پیش کیے جاتے ہیں…..اور اسی میں انکو اپنی ذمہ داری نبھانی پڑتی ہے جس پر اللہ کے پاس انکے لیے بہت سارا اجر موجود ہے…
میں اللہ کا رسول ہوں یہ پیغام لے کر جب حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم کے پاس گئے تو ان کی قوم نے ایک اونٹنی کی شرط رکھ دی.آپ علیہ السلام نے اس آزمائشی شرط کے باوجود اپنے کام کو جاری رکھا پھراللہ نے اپنے بندے کی مدد کی اونٹنی آگئی تو باوجود منع کرنے کےقومِ ثمود نے اونٹنی کے ساتھ وہی ظلم کیا جس کا آپ علیہ السلام منع کرتے رہے آپ علیہ السلام اللہ کے حکم سے آنے والے وقت سے لوگوں کو خبردار کرتے رہے پر ڈھیٹ قوم نہ مانی تو…….ربِ کائنات نے اپنے رسول کی بات کو سچ کردکھایا اور ایک بڑا عذاب ان پر مسلط کرکے دکھادیا..
نوح علیہ السلام کا ذکر بہت خاص اس لیے بھی ہے کیونکہ تبلیغ جیسے عظیم فریضے کو آپ علیہ السلام نے سب سے زیادہ وقت دیا ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر آپ علیہ السلام کی اپنی بیوی اور بیٹے ہی آزمائش بن گئے اور آپ علیہ السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا.وہ وقت یقیناً آپ علیہ السلام کے لیےبہت مشکل رہا ہوگا کیونکہ جب اپنے ہی مخالفت کرنے لگیں تو کہیں نہ کہیں انسان کی ہمت ٹوٹنے لگتی ہےمگر سلام ہو اللہ کے نیک بندے پر آپ علیہ السلام نے اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھائی اور ہر آزمائش کا سامنا کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود پالی…یہاں تک کہ کشتی بنانے پراعتراض کرنے والوں کےطنز کوبھی بڑے حوصلے سے سہا..
طائف کی گھاٹیوں میں اللہ کے اسی مقدس پیغام کو پہنچانے کے لیے جب اللہ کے محبوب ترین بندے حضرت محمد ؐ نے قدم رکھا تو…سرداران نے بجائے بات ماننے کے سخت قسم کی مخالفت کی اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ شریر لڑکوں کو پیچھے لگادیا کہ کہ وہ آپ ؐ کو ستائیں.ان بدماش لڑکوں نے آپؐ کے ٹخنے مبارک پر نشانہ لے لےکر اتنے پتھر مارےکہ آپؐ کے نعلین خون سے بھر گئے.اللہ کی طرف سے مدد آئی اور کہا گیا کہ آپؐ کہیں تو یہ سب یہیں اپنے انجام کو پینچادیے جائیں گے,مگر آپؐ کے اخلاق دیکھیے کے آپ ؐ نے ان لوگوں کو معاف کرکے ان کے حق میں دعا کردی…
معلوم ہوا اس پیغام کو پہنچانے کے لیے اعلی ظرفی بھی بندے میں ہونی چاہیے..اور در گزر والی بات بھی ہو…. نرمی سے بات زیادہ کہی جائے تودل پر اثر کرتی ہے …اس لیے آپ ؐ نے عملی طور پر اس طرح اپنی امت کو کرکے بتادیا کہ ہمیں بھی یہی کرنا ہے…مخالفین اللہ کے پیغام کو روکنے کے لیے آپ ؐ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ظلم ڈھانے لگےتھے,مسلمانوں کوبھوک و پیاس میں مبتلا کیے رکھا یہاں تک کے مسلمانوں کو اللہ کا دین نافذ کرنے کی خاطر کتنے عرصے تک ایک گھاٹی میں دن گزارنے پڑے..
لیکن ان تمام تکلیف دہ حالات کو بڑے صبر و ہمت کے ساتھ جھیلا اور اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا.جبھی تو آج ہم تک یہ دین پہنچاہے…یہ سب لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ دین سیکھیے اور پھیلائیے.اللہ کے انبیاء کرام علہیم السلام نے تو دین اسلام کی روشنی غیر مسلموں تک پہنچائی اور پورے اخلاص کے ساتھ اپنے مقصد میں ڈٹے رہے اللہ نے پھر بھرپور مدد بھی کی.اور آج ہم نےآپس میں فرقوں میں بٹ کرتبلیغ کے اس عظیم کام کو پیچیدہ اور مشکل ترین بنالیاہےنجانےہم آج کونسی تبلیغ کررہے ہیں دینِ اسلام تو ایک ہی ہے فرقوں میں بٹی یہ دعوت کیاواقعی اتنی موثر ثابت ہوسکتی ہے..؟
ہم غیر مسلموں تک کس فرقے کا دین اسلام پہنچائیں گے؟؟اسے کیسے پتہ ہوگا کہ کونسا فرقہ درست ہے..؟؟ہمیں پہلے خود متحد ہونا پڑے گا …اسلام کی مضبوطی ایک ہونے میں ہے.ہمیں سوچنا چاہیے کہ باطل تنظیمیں متحد ہوکر کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی جارہی ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں پڑے ہیں ہمیں فرقوں کی نہیں اسلام کی خدمت کرناچاہیے تھی مگر شاید ہم یہ بات بھول گئے…
بس کبھی کبھی مجھے بہت افسوس ہوتا ہے پر اللہ سے پر امید ہوں کہ ایک دن ان شاءاللہ تمام مسلم ایک ہوکر داعی الی اللہ کا کام ویسے ہی کرسکیں گے جیسا قرآن و حدیث اور انبیاء کرام کی سیرت سے ہمیں پتہ چلتا ہے..اللہ سبحان وتعالیٰ ہم سب بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک کرکے ہماری طاقت بڑھادے اور ہم سے وہ کام لے لے جس کے لیے تونے ہمیں پیدا کیا ہے… ،آمین یارب العالمین۔