رمضان المبارک اور کورونا وائرس

ایک طرف ہرسال کی طرح اس سال بھی پوری دنیا کے مسلمان رمضان کا استقبال اپنے روایتی انداز میں کرنے کے انتظار میں تھے۔سب رمضان کے پر مسرت لمحوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے پر امید تھے۔

کسی کی خواہش تھی کہ وہ رمضان کو مساجد میں اللہ تعالی کی عبادت،تراویح،تلاوت قرآن پاک اور اعتکاف میں گزارے گا،تو کوئی اپنے دوست و احباب کے ساتھ افطار پارٹیوں کے لیے منصوبے بنا رہا تھا۔

تو دوسری طرف کورونا وائرس کی صورت میں ایک امتحان و آزمائش انسان ذات کو خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھا۔پوری دنیا کو اس وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دیکھتے ہی دیکھتے معمولات زندگی کو ایک بریک سی  لگادی۔لاک ڈاؤن لگ گیا۔

فیکٹریاں،انڈسٹریاں،تعلیمی ادارے سب بند ہو گئے۔ایسے میں لوگوں نے اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیے مساجد کا رخ اختیار کیا،مگر مساجد میں بھی اجتماعات  محدود کر دیئے گئے اور شہریوں سے نمازیں اپنے اپنے گھروں میں پڑھنے کی درخواست کی گئی۔

یوں سب لاک ڈاؤن کے باعث گھروں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔رمضان کی آمد آمد تھی،گمان تھا کہ اس بار بھی رمضان المبارک معمول کے مطابق ہوگا۔وہی خوشیاں ہونگی اور وہی پر مسرت لمحے،تراویح بھی پڑھنے جائینگے قاری صاحب کی مسحور کن آواز میں تلاوت قرآن پاک بھی سماعت کریں گے اور افطار پارٹیوں میں بھی شرکت ہوگی، لیکن کورانا وائرس نے سب کچھ درہم برہم کردیا۔

اب تراویح بھی گھروں میں تو افطار بھی۔لاک ڈاؤن بھی طول اختیار کرتا جا رہا ہے،ایک مدت ختم نہیں ہوتی لاک ڈاؤن میں توسیع کردی جاتی ہے۔بچوں اور جوانوں کو کھیلنے کا دل کرتا ہے،وہ عموماً رمضان المبارک کی راتیں جاگ کر تراویح کے بعد کرکٹ کھیل لیتے تھے،مگر اس بار وہ اپنے اپنے گھروں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

 ایک دوست بڑے ہی غمگین لہجے میں کہنے لگا کہ :”اس بار رمضان المبارک کچھ الگ الگ سا لگ رہا ہے” میں سمجھ گیا کہ اس بار رمضان المبارک الگ الگ سا کیوں محسوس ہو رہا ہے؟کیونکہ وہ تمام ایکٹوٹیز معطل تھیں جو ہم اجتماعی طور عموماً رمضان میں کرتے تھے۔

اس بار واقعتاً  کورونا وائرس کے باعث رمضان الکریم کی رونقیں کچھ کچھ معدوم ہوئی ہیں۔ ایسے میں جواباً اپنے دوست کو عرض کیا کہ غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ان شاء اللہ تعالی یہ سیاہ بادل چھٹ جائینگے اور یہ زندگی اپنے معمول پر لوٹ آۓ گی اور رمضان کی رونقیں پھر سے بحال ہونگی۔

حصہ
mm
نعیم اللہ جکھرو نے عربی زبان میں ماسٹر کیا ہوا ہے،جبکہ مخلتف اخبارات/ویب سائٹز کے لیے کالم لکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں