سترہ رمضان کاسورج طلوع ہوا تو آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا ایک جگہ اسکی نگاہ پڑی تو ہٹنا بھو ل گٸ۔۔۔۔ یہ کیا؟وادی بدر میں آج کچھ انوکھا ہورہا تھا۔ ایک طرف کاٸنات کا نور چمک رہا تھااسکے ساتھ جگمگاتےذرے ہیروں کی طرح چمکتےاور ستاروں کی طرح دمکتے اللہ کی ثنا کرتے اس کے آگےہاتھ پھیلا رہےتھے۔ دل میں یقین ۔۔نگاہوں میں امید۔۔ یہ زمین کانمک تھے یہ مسجودِ ملاٸک۔۔!! ابرِرحمت نے رات ہی کو انھیں نہلا دھلا کے پاک کردیا تھا اور انکی تواضع کےلیے آسمانی مشروب کے پیالے بھردیےتھے۔صحرا کی ریت کو بھگو کےقالین بنادیاتھا تاک قدم جم سکیں۔ کچھ تواِن جانثارانِ نبوت کی خدمت کا حق ادا ہو سکے ۔ سورج نے احترام سے نگاہیں جھکالیں۔۔
دوسری طرف کفرکی ظلمتوں میں ڈوبے عیش و تکبرمیں چور اور سامانِ دنیا پہ اکڑنے ،زمین کو ظلم سے بھرنےاور اللہ کے رسول سے لڑنے والے ”زمین کے بوجھ“ ” اسفل السافلین“ کاٸنات کی پست ترین ٹولی پہاڑ کی پست جانب فحش اور مکروہ ترین شورو غوغا مچارہی تھی۔آسمان نے غصے سے انکوپستیوں میں گھیر کر کچڑ میں ڈبو دیا تھا اب وہ چلنے پھرنے سے بھی عاجز ہورہے تھے مگر شرک میں کمی نا تھی اب بھی حقیر مورتیوں کو رب العامین کےمقابلے کے لیے پکارتے تھے۔ شیطان کے چیلے۔۔۔ سورج کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔۔۔۔ وہ پلک جھپکنا بھول گیا۔بھلا اللہ کامعزز ترین بندہ!! وجہ تخلیقِ کاٸنات!!! یوں عالمِ بیخودی میں رورہا ہو گڑگڑارہا ہو دعاوفریاد کر رہا ہو تونظر کیسے ہٹے؟؟ کاٸنات کا ذرہ ذرہ سانس روکے ہمہ تن نگاہ تھا۔۔۔۔
بڑی خوبصورت منظر کشی کی ہے۔
بہت اچھی تحریر یوں محسوس ہونے لگا کہ تمام مناظر آنکھوں کے سامنے ہیں
جزاك اللهُ