السلام وعلیکم پیارے دوست!
فرہاد احمد فگارؔ۔
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ استاد بھی ہوگئے…آپ کو بھائی اس لیے نہیں لکھا کہ وہ چاہِ یوسف سے آتی ہے صدا والی بات… اللہ کے کرم سے اب نو نقد اور تیرہ ادھار والا معاملہ بھی حل ہو گیا… امید کرتا ہوں کہ غمِ روز گار سے نکلنے کے بعد اب آپ مزید تحقیقی کام پر توجہ دے سکیں گے… تنقید بلا شبہ ایک مشکل شعبہ ہے اور سب اس میدان میں کام یاب نہیں ہو سکتے کیوں کہ ہر کوئی اپنا کردار بہترین انداز میں خود ہی ادا کر سکتا ہے اس کی مثال آپ مکھی سے ہی لے لیں… ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ فورا عام مکھی سوچ لیں گے جو کہ سارا جسم چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے اگرچہ کہ یہ تنقید کے قریب ترین ہی ہے کہ کسی کے کلام کے تاریک پہلو پر روشنی ڈالنا یہ آپ کی محبت ہے ورنہ تو مجھ سے خود یہ برداشت نہیں ہوتا کہ فیض صاحب کے متعلق کوئی تین پانچ کرے اور قتیل شفائی صاحب ویسے شریف بچے ہیں۔
خیر یہاں میری مکھی سے مراد شہد والی مکھی تھی کہ جس کی محنت سے ہم مٹھاس کی ایک نئی لذت سے روشناس ہوتے ہیں اور یہ صرف اسی کا کردار ہے کہ وہ کڑوے ترین پھولوں سے بھی مٹھاس ڈھونڈ لاتی ہے اور یہ ہی نقاد کا بھی کام ہے آپ لوگوں کی وجہ سے ادب پہ رونق ہے دوسرے الفاظ میں (یہاں میں تیسرے الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہوں کہ وہ بولنے میں بھلے لگتے ہیں) جیسے دودھ پہ بالائی …. یہ نقاد لوگ ہی ہیں جن کے دم قدم سے طلبہ کو مواقع فراہم ہوتے ہیں کہ اپنی مرضی کا کچھ کِہ سکیں ان شعراکے متعلق جنھیں ماضیِ قریب میں پڑھنا پڑا. نہیں تو ایک اچھا انسان کسی مرے ہوئے پہ انگلی کیوں اٹھائے گا… آپس کی بات ہے آپ کو کیسے پتا چلتا ہے کہ کس کی سزا شروع ہونے والی ہے اور اس کی پیمائش درکار ہے خیر چھوڑیں یہ ایک الگ بحث ہے. برزخ والے شعبے میں بھی یقینا خدائے بلند و برتر نے نقاد قسم کے فرشتے ہی روحوں پر متعین کیے ہوں گے جو کہ روزِ محشر تک اعمال نامے کی بے اعتدالیوں پر بات کریں گے…
اس مشینی دور میں آپ جیسے بندوں کا مل جانا یقینا ایک نعمت سے کم نہیں یقین کیجئے کہ اس علمی دور میں بھی مجھ سے کچھ شدید عجمی لوگ موجود ہیں جو اتفاقا چِراغ کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں… آپ جیسے لوگوں کی بدولت علم کی چند چھینٹوں سے ہم بھی سردیِ علم سے کپکپا اٹھتے ہیں… آپ جیسے احباب کے دم قدم سے اردو زندہ ہے وگرنہ تو مرشد اقبالؔ اب بھی لکھنے لکھانے اور جناب فرازؔ کہنے کہلانے سے باز نہیں آتے… یہ دونوں حضرات انتہائی ذہین واقع ہوئے ہیں اور ماضی سے صرف یہ دو ہی لوگ ہیں جو کمپیوٹر کا استعمال جانتے ہیں ہو سکتا ہے وہاں جنت میں کوئی چھوٹا موٹا کمپیوٹر سینٹر کھول کر حور و غلماں کما رہے ہوں کہ نیکیاں تو ہم لوگ اپنی بھیج ہی دیتے ہیں اس دور میں مرزا غالبؔ ہوتے تو یقینا خطوط کی بہ جائے میسجز پسند کرتے اور علم سکڑ کر موبائل میں رہ جاتا. آج غالب کے خطوط کی بہ جائے ان کے میسجز پڑھ رہے ہوتے اور واٹس ایپ والے ٹیکسٹ کی کتاب الگ سے ہوتی غالب ؔکی رنگین مزاجی کے ایم ایم ایس کی الگ سے کوئی درخواست بن کر آلائے مواصلات میں مستقل شامل کی جاتی زبان سیکھنے سے زیادہ دیکھنے کے کام آتی….
میری خواہش ہے کہ آپ جیسے لوگوں کے لیے گورنمنٹ ٹیکس کے علاوہ بھی کچھ کرے تاکہ آپ اپنی تنخواہ سے کتابوں کے علاوہ بھی کچھ خرید سکیں آخر کب تک آپ کی ڈگری کی سزا آپ کے والدین کو ملے…فگار ؔصاحب! یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ کا شمار میرے احباب میں ہوتا ہے… آپ اس بات پہ شرمندہ ہونا چاہیں تو اجازت ہے… اللہ آپ کو سدا سلامت رکھے اور ہمیں جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے آمین… آپ میرے شدید دوست ہیں اور اتنی ہی شدید خواہش بھی ہے کہ آپ پہ پی ایچ ڈی کروں مگر یونی ورسٹی والوں کی شرائط کہ بندہ گزر گیا ہو یہ الگ بات کہ اکثر باادب لوگ گئے گزرے ہوتے ہیں آپ میری مثال لینا چاہیں تو اجازت ہے کئی بار دل بھی کیا اس معاملے میں آپ سے بات کی جائے کہ گزر جائیے خیر سے اب تو اتفاقا آپ کو سرکاری گود لے لیا گیا ہے جو کہ آپکی عظمت کی ایک اور دلیل ہے۔
آپ یقین رکھیے کہ میں اپنی قلم کے دم سے آپ میں وہ وہ اخلاق حسنہ پیدا کر دوں گا کہ آپ کے کراماً کاتبین بھی اپنے رجسٹر پرکھنے پر مجبور ہو جائیں گے… آپ اردو کا بہت بڑا خزانہ ہیں آج کے اس گنتی کے دور میں گنتی کے آدمی…اگرچہ خزانے زیرِ زمین ہی ہوتے ہیں لیکن چھوڑیے جانے دیجے۔۔۔سلامت رہیے جہاں رہیے اور یوں ہی با ادب لوگوں کا حجم نکالتے رہیے تاکہ بجنے والے اور نہ بجنے والے الگ ہو سکیں…شدید محبتوں سے معذرت کہ مٹھائی ادھار ہے…۔
یاسر اقبال
شورکوٹ کینٹ
یکم، اکتوبر،۲۰۱۹ء