اسلام کے خوبصورت فلسفہ جہاد پہ تنقید کرنے والی اور مسلمان کو اس بنیاد پر دہشتگرد کہنے والی مغربی اور لبرل دنیا آ ج کرونا وائرس کی وجہ سے جنگ کی سی کیفیت میں ہے۔ اس مہلک وائرس نے مغربی دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ یہ وائرس قدرتی وبا ہے یا ایک سوچی سمجھی سازش اس کا تعین تو وقت ہی کرے گا۔
لیکن امریکہ اور چین کے درمیان معاشی طور پر عالمی طاقت بننے کی دوڑ کے متعلق کوئی بھی لا علم نہیں ہے۔ چینی حکام کا یہ کہنا کہ وائرس ووہان شہر میں حیاتیاتی ہتھیار کی صورت میں امریکی فوج مشقوں کے دوران لائی ہے اور امریکی صدر کا کرونا وائرس کے حوالے سے چین پہ الزام لگانا اس سے بھی سب واقف ہیں۔
لیکن یہاں پر توجہ طلب بات یہ ہے کہ کرونا وائرس کے مہلک اثرات سے کوئی بچہ بوڑھا مرد و خواتین محفوظ نہیں ہے۔ کرونا وبا بے ضرر بوڑھوں اور بچوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ وبا کے وار سے نو مولود بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ کیسا جنگی طرز عمل ہے جو نادار اور لاچار کو بھی نہیں چھوڑ رہا بلکہ ان کے لیے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہورہا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس اسلام کا فلسفہ جہاد ہے جو مسلمان کو اس کی سالمیت اور دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے کا تو کہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تلقین کرتا ہے کہ جس قوم کے خلاف جنگ کرو وہاں بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کے ساتھ رحم اور حسن سلوک کا معاملہ اختیار کرو۔ یہ فلسفہ مسلمان کو یہ بھی سیکھاتا ہے کہ شہریوں کی املاک اور سبزے کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔
جبکہ امریکہ اور چین کا جنگی طرز عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس عارضی دنیا کی حاکمیت کے لیے انسانیت کے تمام تر اصولوں کو توڑا جا سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل دہشتگرد اور انتہا پسندانہ رویہ کس کا ہے۔ اسلام کا یا اس کی تعلیمات پر تنقید کرنے والوں کا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’والجهاد ماض منذ بعثنی اللہ الی ان یقاتل آخر امتیالدجال، لا یبطله جورجائز ولا عدل عادل‘‘ جب سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے، جہاد جاری رہے گا یہاں تک کہ میرا آخری امتی دجال سے جنگ کرے گا، اسے کسی ظالم (حکمران) کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کرے گا۔ (سنن ابی داود: ۲۵۳۲، سنن سعید بن منصور: ۲۳۶۷)
Such discussion was need of era