آزادی صحافت کے عالمی دن پربھارتی حکومتوں کا مکروہ چہرہ سامنے لانا ضروری ہے۔ مقبوضہ کشمیر دنیا کے ان مقامات میں شامل ہے جہاں پریس اور میڈیا سے وابستہ افراد انتہائی مشکل حالات میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ساوتھ ایشین وائر کی رپورٹ کے مطابق کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران 1990 سے اب تک 19 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جاں بحق ہونے والے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار ،مشتاق علی، غلام محمد لون، غلام رسول آزاد، محمد شعبان وکیل ، پرویز محمد سلطان، ایک خاتون صحافی آسیہ جیلانی ،شجاعت بخاری ، علی محمد مہاجن، سید غلام نبی،الطاف احمد فکتو،سیدن شفیع ، طارق احمد، عبدالماجد بٹ اورجاوید احمد میر شامل ہیں۔
علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں پر تشدد اغوا قاتلانہ حملے اور انہیں جان سے ماردینے کی دھمکیاں دیناروزکا معمول بن چکا ہے۔القمرآن لائن کے مطابق بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے اگست2018 میں کشمیری صحافی آصف سلطان اور 4مارچ2017 کو ایک کشمیری فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو پلوامہ میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران بھارتی فورسز کے مظالم اجاگر کرنے پر گرفتار کرلیا ۔ بعدازاں کامران کو نئی دلی منتقل کردیاگیا۔ کامران کو گزشتہ سال 14مار چ کو نئی دلی کی تہاڑ جیل سے رہا کیا گیا گزشتہ برس غیرقانونی طورپر نظربند کشمیری صحافی آصف سلطان کو دنیا بھرمیں آزادی صحافت کو لاحق دس فوری خطرات کی کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
گذشتہ برس اگست 2019میں کشمیر کو انڈین وفاق میں پوری طرح ضم کیے جانے کے بعد قدغنوں اور حد بندیوں کا جو سلسلہ شروع کیا گیا تھا وہ ابھی جاری ہی تھا کہ مار چ 2020میں کورونا لاک ڈاون شروع ہو گیا۔ مقبوضہ کشمیر کی بین الاقوامی نیوز جریدے گلوبل پریس جرنل کی ایک رپورٹر ریحانہ مقبول کے مطابق اس وبائی امراض کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی فورسز کی دھمکیوں اور معلومات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ صحافیوں کے لئے مشکل دور ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران متعدد صحافیوں کی تھانوں میں طلبی، گرفتاری اور مقدموں کی وجہ سے پہلے ہی یہاں کی صحافتی برادری عجیب الجھن کا شکار ہے۔
5 اگست 2019 سے اب تک کم سے کم ایک درجن صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ کام کے لئے یا تو ہراساں کیا گیا یا جسمانی طور پر حملہ کیا گیا۔14 اگست 2019 کو عرفان امین ملک کو پولیس نے ترال میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا اور بغیر کسی وجہ کے حراست میں لیا۔ 31 اگست 2019 کو ، گوہر گیلانی ، کو دہلی کے ہوائی اڈے پر حکام نے روک لیا اور بیرون ملک پرواز سے روک دیا گیا۔یکم ستمبر 2019 کو پیرزادہ عاشق کو پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا اور دبائو ڈالا گیا تاکہ وہ اپنی کہانی کے ذرائع کو ظاہر کرے۔ ایک آزاد صحافی مزمل مٹو کو اس وقت پیٹا گیا جب وہ سری نگر کے پرانے شہر میں کاوجا بازار کے علاقے میں مذہبی اجتماع کی کوریج کر رہے تھے۔
17 دسمبر 2019 کو ، پرنٹ کے اذان جاوید اور نیوز کلیک کے انیس زرگر پر پولیس نے اس وقت جسمانی حملہ کیا جب وہ سری نگر میں احتجاج کی کوریج کررہے تھے۔ 30 نومبر 2019 کو ، اکنامک ٹائمز کے حکیم عرفان اور انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود کو پولیس نے طلب کیا اور ان کی خبروں کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔23 دسمبر 2019 کو ، ہندواڑہ میں بشارت مسعود اور اسکرول کے صفوت زرگر کو پولیس نے روک لیا جب وہ ایک اسائنمنٹ پر تھے۔ انہیں ایس پی ہندواڑہ کے دفتر لے جاکر پوچھ گچھ کی گئی۔
8 فروری 2020 کو ، آوٹ لک کے نصیر گنائی اور ہارون نبی کو پولیس نے طلب کیا اور جے اینڈ کے لبریشن فرنٹ کے جاری کردہ بیان پر رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔16 فروری 2020 کو ، نیوز کلیک کے کامران یوسف کو ٹویٹر استعمال کرنے کے شبے میں پولیس نے اس کے گھر سے اٹھایا۔
0 اپریل 2020 کو، ایک مقامی انگریزی روزنامہ ، کشمیر آبزرور کے ساتھ کام کرنے والے صحافی مشتاق احمد کو جموں و کشمیر پولیس نے اس وقت مارا پیٹا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جب وہ شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ پولیس لاک اپ میں اسے دو دن تک حراست میں رکھا گیا ۔20 اپریل 2020میں جموں و کشمیر پولیس نے مسرت زہرہ اور پیرزادہ عاشق کے بعد معروف ٹی وی پینلسٹ اور صحافی گوہر گیلانی کے خلاف ایف آئی آر درج کی ۔
پچھلے سال ، اے ایف پی کے سینئر فوٹو جرنلسٹ توصیف مصطفی کو سب انسپکٹر عہدے کے ایک پولیس اہلکار نے اس وقت حبس بے جا میں رکھا جب وہ سرینگر ہوائی اڈے پر سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر علیحدگی پسند رہنماوں کی کوریج کررہے تھے۔ حملے کے دوران دیگر صحافیوں – فاروق جاوید اور شعیب مسعودی ، شیخ عمر اور عمران نصار بھی زخمی ہوئے۔
8 اکتوبر سے 30 اکتوبر ، 2018 کے درمیان جموں و کشمیر میں صحافیوں کو پابندیوں اور حملوں کے متعدد واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ 2018 میں سیکیورٹی فورسز نے فوٹو جرنلسٹوں کو شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں بلدیاتی انتخابات کی کوریج سے روک دیا۔ 11 اکتوبر ، 2018 کو ، جموں و کشمیر پولیس نے ریاست اور قومی میڈیا کے ایک درجن صحافیوں کو ضلع کپواڑہ میں شہید عسکریت پسند منان وانی کی نماز جنازہ کی کوریج سے روک دیا۔17 اکتوبر ، 2018 کو ، جموں و کشمیر پولیس نے سری نگر میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی کوریج کرنے والے کم از کم چھ صحافیوں کو زدوکوب کیا۔ 19 اکتوبر ، 2018 کو ، کشمیر والہ کے ساتھ تین صحافیوں۔ ثاقب مغلو، قیصر اندراب، اور بھٹ برہان کو ان کے دفتر کے باہر مارا پیٹا گیا ۔30 اکتوبر، 2018 کو ایک ویڈیو گرافر، اعزاز احمد ڈار، کو سیکیورٹی فورسز نے پیلٹ گن سے زخمی کردیا۔
گذشتہ برس ایک رپورٹ شائع کرنے کی پاداش میں تھانے میں طلب کیے گئے ہفت روزہ آوٹ لک کے نامہ نگار نصیر گنائی کہتے ہیں کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم وائرس سے بچیں یا ایف آئی آر سے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے انٹرنیٹ پر پابندی سے صحافیوں کا کام مشکل بنا دیا گیا اوراب سوشل میڈیا پوسٹس کو وطن دشمن قراردیا جا رہا ہے۔
ماجد مقبول ، کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی ، نے کہا صحافی خاص طور پر 5 اگست کے بعد انتہائی سخت حالات میں کام کر رہے ہیں ، حکام نے ہمارے بہت سے ساتھیوں کو ہراساں کیا جس کامقصد کشمیری صحافیوں کو ڈرانے ، پریس کی آزادی کو دبانے اور انھیں اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کے لئے راہ میں حائل رکاوٹیں ڈالنا ہے ۔1992 ء سے اب تک بھارت میں 37 صحافی اپنے کام کی وجہ سے مارے گئے ہیں اور مجموعی طور پر1992 سے 2018 کے درمیان بھارت میں87 سے زیادہ صحافی اورمیڈیا کارکن مارے جاچکے ہیں۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں اس وقت بھارت 36 ویں نمبر پر ہے۔
آئی ایف جے نے کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی کے خلاف مضبوط یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی 37 قومی میڈیا یونینوں کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا کی وکالت اور اظہار رائے کی آزادی کی تنظیموں ، جس میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) اور جنوبی ایشیا میڈیا یکجہتی نیٹ ورک، بین الاقوامی آزادی اظہار رائے نیٹ ورک (IFEX) سے وابستہ SAMSN) ممبران نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مواصلات کی ناکہ بندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے پاکستانی حکومت اور میڈیا دونوں ہی اپنا کردار ادا کرنے میں کسی واضح اور ٹھوس حکمت عملی سے محروم ہیں۔ ہماری کشمیر کے متعلق میڈیا پالیسی سرکاری ٹی وی چینلوں پراپیگنڈا خبروں اور کشمیری زبان کے چند خبرناموں کی خود فریبی سے آج تک باہر ہی نہیں نکل سکی ۔ آج بھی سرکاری پی ٹی وی کے خبرناموں میں کشمیر میڈیا سروس کی خبروں میں بھارتی فوج کے ساتھ مجاہدین کی جھڑپوں اور ان میں کشمیر مجاہدین کی شہادتوں کے اعداد شمار ایک روایتی خبر بن چکے ہیں ۔
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق انہوں نے ایک مضمون میں کہا کہ سرکاری خبررساں ایجنسی بھی کشمیر کے نام سے خبروں کا ڈیسک تو بنادیتی ہے مگر اسکے پاس بھی کشمیر میڈیا سروس کی جاری کردہ خبریں چلانے اور اعلی سرکاری عہدیداروں کے کشمیر سے متعلق بیانات چلانے کے علاوہ بیچنے کو کچھ خاص نہیں۔ امریکہ اور یورپ کے عالمی نشریاتی اداروں اور اخبارات میں بھارتی نژاد صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو بھارتی مفادات کا ڈھکے چھپے انداز میں تحفظ کرتی ہے۔
پاکستان میں ہماری حکومتوں نے جو پیسہ بین الاقوامی لابنگ فرم کی خدمات اور عالمی میڈیا میں اشتہار بازی پر لاکھوں ڈالروں کی صورت خرچ کیا اگر وہی پیسہ پاکستان کی یونیورسٹیوں اور انکے شعبہ جات صحافت پر لگایا جاتا تو آج پاکستانی نژاد صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد عالمی اخبارات و نشریاتی اداروں میں پاکستانی مفادات اور مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد کی کم از کم درست عکاسی تو کر رہی ہوتی۔