پاکستان میں سائنسی صحافت ؛ وقت کی ایک اہم ضرورت

آج کے اس دور میں کسی خبر کو آپ تک پہنچانے میں میڈیا کا کردار بہت اہم رہا ہے اور خبروں کو آپ تک پہنچانے میں صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ملک کی ترقی میں سائنسی تحقیقات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب کوئی سائنسدان کسی قسم کا کارنامہ انجام دیتا ہے تو اس کارنامے کو دنیا اس وقت تک تسلیم نہیں کرتی جب تک اس کی اشاعت کسی سائنسی جریدے میں نہیں ہوجاتی لیکن ان جریدوں میں شائع کئے گئے مضامین کی سمجھ صرف سائنسدانوں اور اس خاص شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو ہی آتی ہے۔ یہ مضامین عام افراد کیلئے ناقابل فہم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں خاص سائنسی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں کی جانے والی تحقیقات کے بارے میں عام عوام کو کس طرح اِس طرح کے علم اور فہم کے بارے میں باآسانی آگاہ کیا جائے؟
یہاں ضرورت ہوتی ہے ’’سائنسی صحافت‘‘ کی۔ سائنسی صحافت کا بنیادی مقصد سائنس کے بارے میں صحیح معلومات عام فہم الفاظ میں ان لوگوں تک منتقل کرنا ہے جن کا براہِ راست سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہو۔ اس شعبے میں کام کرنے والے صحافیوں کا کردار سائنسدانوں اور عوام میں باہمی ربط قائم کرنا ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں سائنسی صحافت کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کی تو بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن ان میں سائنس جرنلسٹ کی تعداد آٹے میں نمک کے مترادف ہے۔ یہ صحافت کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے، جسے پُر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے باعث پاکستانیوں کے بارے میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس ملک میں سائنسی تحقیقات کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا جا رہا، حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قیام کے بعد سے اب تک اس ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اس ملک کے سائنسدانوں کی جانب سے عالمی سائنسی جریدوں میں سائنسی مضامین کی اشاعت میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور سالانہ اشاعت کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔
ایک بین الاقوامی ادارے تھامسن ریوٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے سال 2006ء میں 2000 سائنسی مضامین کی قومی اور بین الاقوامی جریدوں میں اشاعت کی گئی اور 2015ء میں ان کی تعداد میں 3 گنا اضافہ دیکھا گیا یعنی 9000 مضامین شائع ہوئے۔ مزید ان مضامین کے حوالہ جات (Citation) کے لحاظ سے پاکستان نے BRIC ممالک یعنی برازیل، روس، انڈیا اور چائنا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جو پاکستانی سائنسدانوں کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ تمام باتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ پاکستان میں سائنسی تحقیقات کا رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارا میڈیا ملک میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کو قابل توجہ اہمیت نہیں دے رہا۔ جبکہ سوشل میڈیا جیسا قابل ذکر میڈیم ’منفی اور غیرسنجیدہ‘ معلومات عوام تک پہنچا کر ملک و قوم کا قیمتی وقت ضائع کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستان میں سائنسی صحافت کے رجحان کو بڑھانے کیلئے چند تجاویز پر غور کرکے ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس رجحان میں اضافے کیلئے تین مختلف قسم کے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر کام کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔ ایک وہ لوگ جن کا تعلق پہلے ہی صحافت سے ہے۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن میں سائنس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے، ان لوگوں کیلئے ایسے کورسز متعارف کروانے چاہیئے کہ جن سے ان میں سائنس کی بنیادی معلومات اور موجودہ سائنسی تقاضوں کے بارے میں علم و فہم پیدا کیا جاسکے۔
۔۔۔ دوسرے وہ لوگ جن کے پاس کسی بھی سائنسی شعبہ علم میں بیچلرز یا ماسٹرز کی ڈگری ہو۔ ایسے لوگوں کیلئے وہ کورسز متعارف کروانے چاہیئے جن سے ان میں صحافتی مہارت پیدا کی جاسکے۔ یہ کام پہلے قسم کے لوگوں کی نسبت آسان ہوگا۔
۔۔۔ لوگوں کی تیسری قسم وہ ہے جن کا براہ راست سائنسی تحقیقات سے تعلق موجود ہو، ایسے لوگوں کیلئے چھوٹی چھوٹی ورکشاپس کا انعقاد کیا جانا چاہئے جس سے ان لوگوں میں سائنسی مضامین کو عام فہم زبان میں بیان کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکے۔ ایسے افراد کے ساتھ کام کرنا دونوں قسم کے لوگوں کے مقابلے میں آسان اور زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ افراد سائنسی علوم میں مہارت اور تجربہ رکھنے والے ہوتے ہیں۔
جس طرح ہمارے سائنسی تحقیقی اداروں میں متعدد ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے اسی طرح کچھ ورکشاپس سائنسی صحافت پر بھی منعقد کی جانی چاہیئے اور ان میں شرکت کرنے والے لوگوں میں اس رجحان کو فروغ دینا چاہیئے کہ وہ اپنی فیلڈ سے منسلک مضامین، ملکی ضرورت کو مدنظر رکھ کر لکھنے سے اس کام کا آغاز کریں۔
ان تمام تجاویز پر عمل کرکے اس ملک میں سائنسی صحافت کو فروغ دیا جاسکتا ہے تاکہ ان کوششوں کی بدولت اس ملک میں کی جانے والی تحقیقات کو ملکی اور عالمی سطح پر اجاگر کیا جاسکے اور پاکستان میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے۔
پاکستان میں سائنسی صحافت کا بانی جناب عظمت علی خان صاحب کو مانا جاتاہے۔پاکستان میں یہ ایک ایسی عظیم ہستی کی صورت میں ابھرے کہ جنہوں نے پاکستان میں سائنسی صحافت کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے فروغ کیلئے نثار کیا۔ انہوں نے اُس وقت کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا صحیح اور مؤثر استعمال کیا۔ اس عظیم ہستی کو’عظمت علی خان‘ کے نام سے جانا جاتا تھالیکن ہماری نئی نسل نے انہیں یکسر فراموش کر دیاہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس ہستی کو ایک بار پھر زندہ و جاوید کیا جائے تاکہ ان کی روح کو حقیقی تسکین پہنچائی جا سکے اور دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم میں ابھی احساس زندہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان کی روح کو تسکین کیسے پہنچائیں؟ کیا ہم ان کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں کریں؟ یا ان کی یاد میں میموریل کا انعقاد کریں؟ یا ان کے مشن کو آگے بڑھائیں؟یا ہم یہ تینوں کام کریں؟
اس شعبہ کی ’الف‘ ’ب‘ سے نابلد ہونے کے باوجود دل سے ایک پکار اٹھتی ہے کہ ہم ان کے مشن کو آگے ہی بڑھا کر اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں اور نئی نسل کو اس ملک میں کی جانے والی سائنسی اور تحقیقی جدوجہد سے روشناس کر سکتے ہیں ۔ ہمیں اس عزم کے ساتھ کام کرنا ہوگا کہ اس ملک کی ایک چھوٹی سی لیب میں سائنس کوئی کارنامہ جنم دیتی ہے تو وہ اس کا ذکر ملک کے ایک ایک بچے کی زبان پر ہو۔
یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ ہم یہ کام کیسے کریں؟ہم بات تو سائنسی صحافت کی کرتے ہیں لیکن درحقیقت اس صحافت سے سائنس کی روح پرواز کر چکی ہے۔یہ بات کچھ لوگوں کو شاید ناگوار گزرے لیکن آپ ایک لمحہ کیلئے سوچیں کہ آپ کے پاس مشین گن ہو اور آپ غلیل سے پتھر پھینک رہے ہیں۔ حالانکہ دونوں سائنسی ایجادیں ہیں۔ ایک نئی اور ایک پرانی۔ موجودہ سائنسی صحافت کا بھی یہی حال ہے۔
ایک پینٹر کی مثال سے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ فن خطاطی بہت ہی قدیم اور باعزت فن تصور کیا جاتا تھا، جاتاہے اور جاتا رہے گا۔ لیکن وقت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور کچھ مطالبات بھی ہوتے ہیں۔ اگر ایک عقل مند پینٹر جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے فن کی زمانے میں قدرہی نہیں رہی تو وہ ایک قدم آگے بڑھا کر اپنی دکان کے سائن بورڈ میں سکرین پرنٹنگ اور پینا فلیکس کا اضافہ بھی کرلیتا ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں سائنسی جریدوں کو پڑھنے کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ترجیحات بدلتی گئیں اور یہ رجحان نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اب کیا ہم نئی نسل میں اس رجحان کے ختم ہونے پر رونا روتے رہیں گے یا مثبت رویہ اپناتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھائیں گے؟
سائنسی صحافت محض چند سائنسی جریدوں کے شائع ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک کلچر ہے۔ اس کلچر کو اسی صورت فروغ دیا جا سکتا ہے کہ ہم نئی نسل کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت انداز میں اس صحافت کو ان ترجیحات کے مطابق ڈھالنے کی جد و جہد کریں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ کام کیسے کریں؟ اس کیلئے مندجہ ذیل تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔ موجودہ سائنسی جریدوں کو الیکٹرانک ورژن میں اپ ڈیٹ کیا جائے۔ ویب سائٹس لانچ کی جائیں اور ان ویب سائٹس کو فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا کے ذریعے پروموٹ کیا جائے۔
۔۔۔ سائنسی مضامین کو سائنسی جریدوں سے نکال کر عوامی پلیٹ فارم پر لایا جائے تاکہ عام لوگوں میں دلچسپی بھی پیدا کی جاسکے۔
۔۔۔ سائنسی ٹیلی وژن لانچ کیا جائے اور ان میں سائنسی شوز، کارٹون، ڈیبیٹ، طنزو مزاح جیسے پروگرامات کئے جائیں۔
۔۔۔ اخبارات میں سائنس کامکس(Comics) کا علیحدہ سیکشن مختص کیا جائے۔
۔۔۔ خاص کر اسکول کے بچوں کیلئے سائنسی گیمز، لطیفے ، مقابلے جیسی سرگرمیوں کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پروموٹ کیا جائے۔
اس کے علاوہ مزید اقدامات پر بھی غور کیا جا سکتاہے جس سے اس ملک میں سائنسی موضوعات کو گلی میں کھیلنے والے بچوں کی زبان تک عام کیا جا سکے۔ اب وہ وقت نہیں رہا کہ ہم صرف باتوں سے دل بہلا لیں بلکہ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کچھ مخصوص افراد کے آگے بڑھنے کا انتظار کئے بغیر ہم اپنے حصے کا دیا جلانے میں دیر نہ کریں۔

 

حصہ
ڈاکٹرریحان احمد صدیقی ابھرتے ہوئے قلم کار ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے مالیکیولر میڈیسین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ریحان صدیقی ان نوجوانوں میں شامل ہیں جو سماج کے بڑھتے ہوئے مسائل کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں اور اپنے قلم سے اس کے تدارک کے لیے کوشاں ہیں۔

جواب چھوڑ دیں