کورونا وائرس نے جہاں نہ صرف دنیا بھر میں تباہی پھیلائی ہے وہاں اس نے پوری انسانیت کو اتحاد کا درس بھی دیا ہےاور یہ اتحاد پوری دنیا کے ممالک میں نظر بھی آ رہا ہے۔لیکن وطن عزیز پاکستان میں اس بابت عوام و خاص ابھی تک الجھن واضطراب کا شکار نظر آتے ہیں۔ہمارا حکمران طبقے کو چاہیے تھا کہ سب کو ساتھ لیکر چلتا مگر یہاں تو خود حکومت ہی مسائل میں فروغ کا باعث بن رہی ہے۔
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب کبھی بہ کوئی وبا آئی ہے تو وہاں وقت کے حکمرانوں نے علماء اور ڈاکٹرز کے ساتھ ملکر عوام کے سامنے ایک واضح پالیسی رکھی ہے۔مگر افسوس کہ آج پاکستان میں ہمارے یہ تینوں طبقے انتشار کا شکار ہیں۔ یہاں ایک دن حکومتی نمائندہ پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیتا ہے تو دوسرے اور تیسرے دن علماء و ڈاکٹر حضرات پریس کانفرنس کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک زندہ قوم کے لیے باعث شرم بات ہے۔
دوسری طرف ہماری میڈیا ہے جو پہلے ہی مساجد و مدارس کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے پر افسوس کہ ان دنوں وہ اکثر مساجد ہی کا ذکر کرتا نظر آتا ہے اور مساجد کے لیے “کھولنے” اور “بند کرنے” جیسے الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ میری ابتدا سے یہی راے رہی ہے کہ موجودہ وبائی صورتحال میں جبکہ مرض کی علت بھی ایک ہی ہے وہ تمام جگہیں جہاں افراد کثرت سے جمع ہوتے ہوں ان کے ساتھ یکساں اور برابری کے ساتھ سلوک اور اعتدال کے پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
مساجد کے بابت جو اعتدال کا پہلو ہے وہ یہ ہے کہ وہ آباد رہیں اور ان کے لیے “کھولنے/بند کرنے” جیسے الفاظ استعمال نہ ہوں کیونکہ اس سے باہم انتشار میں اضافے کے سواے کچھ بھی نہیں۔اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف کہ مساجد آباد کیسے ہوں..؟آباد سے مراد قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہاں نمازیوں کی تعداد عمومی حالات کی طرح ہی ہو۔ بلکہ مساجد میں پانچ وقت اذان ہو اور متعلقہ اسٹاف اورجو لوگ احتیاطی تدابیر کے ساتھ وہاں جماعت کےساتھ نمازپڑھنا چاہیں وہ نماز پڑھ لیں۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ وہ گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرلیں۔
اس کے باوجود لوگ اگر مساجد کا رخ بااحتیاط تدابیرکرتے ہیں تو ان کوروکنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ یہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کوئی بہتر فیصلہ کریں۔تیسری جو قابل توجہ بات ہے وہ یہ ہے کہ میڈیا پر صرف اکثر مساجد کا ذکر چل رہا ہے جوکہ ایک غیرمناسب بات ہے۔ ہونا تو یہ چاہیےتھا کہ مساجد کے ما سواے جوایسےادارے اور جگہیں ہیں جہاں لوگوں کا جم غفیر جمع ہوتا ہے ان کا بھی ذکر ہوتا،(اگرچہ ان کا بھی ذکر ہے لیکن انتہائی کم)
اس لیے میں صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ باہمی منافرت کے طریقے کو چھوڑ کر اعتدال کی راہ اختیار کی جائے اور ایسے فیصلے کیے جائیں جن پر سب کا اتفاق ہو تاکہ عوام میں اضطراب و بے چینی نہ پھیلے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہماری حکومت،ڈاکٹرز اور علماء کرام مل بیٹھ کر کوئی متفقہ اعلامیہ جاری کریں۔