کپتان جیت جائے گا

کرونا جیسے موذی مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،دنیا کے دوسو چار ممالک میں یہ بیماری اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے۔ کیا ترقی پذیراور کیا ترقی یافتہ ممالک سب اپنی اپنی بقا کی جنگ میں لگے ہوئے ہیں صرف امریکہ کی اگر مثال لی جائے تو اس نے پہلے مرحلہ میں بائیس سو ارب اور دوسرے مرحلہ میں دو ہزار ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے تاکہ اس بیماری کا مقابلہ کیا جائے۔

ذرا سوچیں ترقی یافتہ اور خود کو دنیا کی سپر پاور کہلانے والے کا یہ حال ہے تو ترقی پذیر ممالک کا کیا حال ہوگا خاص کر وہ ممالک جہاں کروڑوں کی تعداد میں لوگ خطَ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کی فی کس آمدنی چند سو روپے اور اگر ڈالرز میں تبدیل کیا جائے تو سو سے بھی کم ڈالرز بنیں گے،ایسے میں پس اندازی کا تو آپ سوچ بھی نہیں سکتے،بدقسمتی سے پاکستان کا شماربھی ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں لوگوں کی قوت پس اندازی نہ ہونے کے برابر ہے۔

محض چند خاندان ہیں جو انڈسٹری،سیاست،زراعت اور معیشت کو اپنے کنٹرول میں کر کے بائیس کروڑ عوام سے کھیلتے رہتے ہیں وگرنہ لوگوں کی معاشی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ بائیس کروڑ کے اس ملک میں غربا کی امداد کے لئے احساس پروگرام میں ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ رجسٹرڈ ہیں جنہیں بارہ ہزار روپے کے حساب سے امدادی فنڈ کی صورت میں مدد کی جارہی ہے اور مزید چار کروڑ افراد مدد کے لئے حکومت پاکستان کو ایس ایم ایس کر چکی ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔اب ذرا اندازہ لگائیں کہ بائیس میں سے چھ کروڑ عوام امداد کی طلبگار ہے تو معاشی صورت حال کیسی ہوگی؟

اسی لئے وزیر اعظم پاکستان نے گذشتہ روز ٹیلی تھون کے ذریعے سے مخیر حضرات سے اپیل کی کہ ملک اس وقت مشکل اور نازک دور سے گزر رہا ہے(اگرچہ میں یہ بات پچھلے پچاس سال سے سن رہا ہوں،پھر بھی امید فردا کا دامن نہیں چھوڑا)اس لئے ملک کو اس مشکل حالات سے نکالنے کے لئے دل کھول کر عطیات جمع کروائیں اور میں حیران ہوں کہ ایک وقت میں میاں نواز شریف نے قرض اتارو اور ملک سنوارو پروگرام کے ذریعے اربوں جمع کئے قرض یوں کا توں ہی رہا،تاہم میں حیران ہوں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان 1990 سے شوکت خانم کے ابتدائی ایام سے چندہ مانگ رہے ہیں اب 2020آگیا ہے لیکن سلام ہے ان احباب کو جو آج بھی عمران خان پہ اتنا اعتماد کرتے ہیں کہ محض دو گھنٹے کی نشریات میں اہل ثروت نے 55کروڑ75لاکھ جمع کروائے۔اور اب تک اس فنڈ میں پوری دنیا سے دو ارب اور چھہتر کروڑ جمع ہو چکے ہیں۔

مجھے حیرانی اس بات کی ہوئی کہ کچھ ایسے افراد بھی تھے کہ جنہوں نے وزیراعظم کی اپیل پہ چندہ بھی دیا راشن بھی تقسیم کیا اور گذشتہ روز پھر سے لاکھوں روپے جمع کروائے۔آخر لوگ کیوں اتنا اعتماد کرتے ہیں؟اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے بھی ہیں تو میرا خیال ہے کہ لوگ اسی پہ اعتماد کا اظہار کرتے ہیں جو لوگوں کے اعتماد پہ پورا بھی اترے،جیسے کہ خان صاحب نے شوکت خانم کے لئے چندہ جمع کیا تو ایک نہیں بلکہ دو ہسپتال ،تین لیبارٹریز اور اب تیسرا ہسپتال کراچی میں بننے جا رہا ہے۔تعلیم کے میدان کی بات کی جائے تو میانوالی جیسے کم ترقی یافتہ شہرمیں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی کو بنا کرارو چلا کر دکھایا بھی،اسی لئے لوگ عبدالستار ایدھی کی طرح عمران خان صاحب پہ بھی مکمل اعتماد کرتے ہیں۔

ٹرانسمشن میں ایک صحافی کے سوال کہ خان صاحب جب بانوے کے ورلڈ کپ میں ایک وقت میں ٹیم کی پوزیشن اتنی بہتر نہیں تھی تو کیا تب بھی آپ کو بھروسہ تھا کہ آپ ورلڈ کپ جیت جائیں گے؟جس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جب آپ کو زندگی میں بہت تجربہ ہو جاتا ہے تو اپنے آپ پہ اعتماد بھی اسی حساب سے بڑھتا جاتا ہے اس لئے مجھے اپنے آپ پہ اعتماد اور یقین تھا کہ ہم یہ کپ ضرور جیت جائیں گے۔

جس طرح ٹیلی تھون میں ہر مکتبہ فکر یعنی سرکاری ملازمین،پروفیسرز،آرکیٹکچر کمیونٹی،بزنس مین،صنعتکار سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق وزیر اعظم کی اپیل پہ لبیک کہا،اور جیسے گردشی قرضوں کی کم کیا،آئی ایم ایف کے قرض کو ری شیڈول کروایا،تعمیراتی شعبہ کی طرف خصوصہ توجہ دی،یہ سب دیکھ کر مجھے بھی اب مکمل یقین ہوتا جا رہا ہے کہ کپتان 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح مشکل کی اس گھڑی میں بھی جیت جائے گا۔کیونکہ ایک کوہ پیما جو کہ بیس کیمپ میں بیٹھا کوہ پیمائی کی پلاننگ کر رہا تھا کہ پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے پوچھا کہ ابھی تک اس پہاڑ کو کسی نے سر نہیں کیا،آپ کیا کہتے ہیں کہ اس پہاڑ کو سر کر لیں گے تو کوہ پیما نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ ہاں مجھے اپنی توانائی پہ یقین ہے کہ میں اس پہاڑ کو سر کرلوں گا۔

واقعی جذبے جوں اور اپنی ذات پہ اگر یقین ہو تو انسان بڑے بڑے پہاڑ آسانی سے سر کر لیا کرتا ہے۔کیونکہ منزل کتنی بھی کٹھن کیوں نہ ہو منزل مقصود حاصل کرنے کے لئے پہلا قدم اٹھانا پڑتا ہے،اور وہی لوگ کامران ہوتے ہیں جن کے سراور قدم گرم رہتے ہیں،اس لئے مجھے امید ہے کہ کپتان کا جذبہ بھی جوان ہےاور قوم ان کے ساتھ ہے کامیابی کپتان کی ہی ہوگی۔انشا اللہ..

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں