ملاقاتوں کا بہترین وقت ہے

گرمی کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، یہ وہ اضافہ ہے جسکے لئے دعا کی جارہی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ غالب گمان کیا جا رہا تھا کہ کرونا نامی دہشت گرد گرمی میں زندہ نہیں رہ سکے گا ۔ دہشت گردی کو جب اسلامی دہشت گردی کہا گیا تو کسی نے کچھ نہیں کہا تو اب جب ہم اس کرونا کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں تو یقین ہے کہ کوئی کچھ نہیں کہے گا ۔ وقت کی قلت کا بہانا بنانے والے ، دنیا جہان کے کاموں میں مصروف رہنے والے اور جھوٹے سچے وعدے کر کے مکرنے والوں کیلئے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ اپنی ساری کوتاہیوں کا آزالہ کر لیں۔

ایک بات پر کچھ لمحوں کیلئےدھیان دیں کہ ایک وہ وقت تھا جب حضرت انسان غاروں میں رہا کرتا تھا اورسماجی فاصلے کیلئے زیادہ سے زیادہ کوئی حد طے نا تھی ۔ آج کرونا کی بدولت پیدا ہونے والے حالات نے ایک بار پھر اسی دور میں دھکیل دیا ہے لیکن ہماری خوش نصیبی ہے بلکہ یہ وسائل کی دستیابی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ ہم تاریخ کے سب روشن دور میں زندہ ہیں جہاں انسان تنہا ہوکر بھی تنہا نہیں ہوتا، دن رات سے آزاد ہونے والا انسان آج کاروباری امور بھی اپنے گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر بھی چلا لیتا ہے اور نا معلوم کتنے ہی کاروبار اسی طرح چل رہے ہیں جن کے نا کوئی دفتر ہیں اور نا ہی کوئی باقاعدہ عملہ۔

ہم یہ سب تکنیکی مہارت پر عبورپالینے کے باعث کر رہے ہیں ۔ دنیا نے تقریباً ہر چیز کا متبادل تلاش کر لیا ہے اور جہاں تک ممکن ہوا تکنیکی مہارت کی مدد سے بنا لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پیچیدہ ترین حالات میں بھی  بند نہیں کی جارہی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان قدرت کیساتھ کسی کشمکش میں مبتلاء ہوگیا ہے، ناچاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو روک نہیں پا رہا یا پھر اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔ قدرت جیسے انسان کو پابند ہونے کی تنبیہ کر رہی ہے اور انسان تو کسی پابندی کا قائل ہونے کو تیا ر ہی نہیں   ہے ہم یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابلیس راندھائے درگاہ کیوں ہوا تھا ، جی ہاں نافرمانی حکم عدولی  کی بدولت اس نے اپنا اعلیٰ درجہ ہی نہیں گنوایا بلکہ رہتی دنیا تک کیلئے نشان عبرت بنادیا گیا۔ لیکن جس کیلئے عبرت بنایا تھا وہ تو خود اس کے آلہ کار بن بیٹھے ہیں ۔

انسان نے وسائل کی دستیابی کی بدولت خود کو محدود کرنا شروع کیا اور اس بات کی خاطر کہ کہیں کوئی اس کی سہولیات کو نظر نہ لگا دے خود کو تنہائی میں لے گیا ۔ کسی نے اس سوچ کو بھی اپنایا کہ لوگوں سے کم سے کم ملو ورنہ لوگوں کی ضرورتیں تم تک پہنچنا شروع ہوجائینگی ۔ انسان کتنا ہی فراخ دل ہوجائے لیکن محدود ہی رہتا ہے آسان لفظوں میں انسان ، انسان ہی رہتا ہے خدانہیں ہوسکتا ۔ حقیقت میں انسان قدرت کی تدبیروں سے بے خبر اپنی حکمتِ عملیاں ترتیب دیتا رہتا ہے اور بڑے وثوق سے ان پر عمل پیرا ہو کر فخر سے دوسروں کو بتا تا ہے کہ اسنے کچھ سال پہلے ایسی حکمت عملی بنائی تھی کہ آج اسے اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے، شائد وہ نا چاہتے ہوئے بھی کہیں بھول جاتاہے کہ ایک ایسی طاقت جس کے کن سے پلک جھپکنے میں تندرست و توانا انسان کی  روح پرواز کر جاتی ہے ۔

دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کرنے والے جو دنیا میں تیل کی قیمتوں کو اپنی مرضی سے بلند ترین سطح پر لے جاتے رہے اپنے مفاد کی خاطر، جو دنیا میں سراٹھانے والے ممالک پر طرح طرح کی پابندیاں لگاتے رہے جن کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے گزر گئے، بھوک تقریباً تیسری دنیا کے ہر ملک کا سب سے  بڑا مسئلہ بنادی گئی، دنیا میں طرح طرح کے مسائل پیدا کیے گئے اور ہرممکن کوشش کی گئی کہ ساری دنیا انہیں سجدہ ریز ہوجائے ، لیکن مخلوق کا خالق کب تک اپنی سب سے قیمتی تخلیق کی پامالی برداشت کرسکتا ہے ، یوں تو زمین کی گڑگڑاہٹ کی وجہ بھی دنیا کے ٹھیکے داروں نے زمین کی جنبش بتائی اور اپنے طور جنبش کی بھی وجہ بتائی ، یوں تو سونامی کی وجہ بھی بتائی گئی کہ سمندر کے اندر زمین کی پلیٹوں کے الٹ پھیر سے ہوا، جنگلات میں لگنے والی آگ کی وجہ بھی بتائی گئی کہ شدید گرم موسم میں ہوا کی وجہ سے پتوں کی رگڑ اور سمندری طوفانوں کی وجوہات سے بھی آگاہ کیا جاتا رہا ہے یعنی انسان نے قدرت کی نا ماننے کی ٹھانی ہوئی ہے اور ہر چیز کو مادی طور سے پرکھ کر دنیا کے سامنے اپنی تکنیک کا ڈنکا بجایا ہوا ہے۔

آج دنیا دردناک مشکل سے دوچار ہوئی ہے اور وہ سارے کہ سارے خود بھی اس مشکل میں بدترین طرح سے پھنسے ہوئے اور کسی آسیب زدہ ماحول میں رہ رہے ہیں ایک دوسرے سے میل جول تو دور کی بات ہے قریب آنے سے خوفزدہ ہیں ، وقت بہت تیزی سے گزرتا جارہا ہے انسانی زندگیاں اس کرونا نامی وائرس کا شکار ہوتی  جا رہی ہیں نا ہی کوئی مقدس ہونے کی وجہ سے بچ رہا ہے اور نا ہی کوئی دنیا جدت پر عبور رکھنے کی وجہ سے بچ رہا ہے ، بس وہی بچ رہا ہے جسے قدرت بچارہی ہے ۔ لیکن دنیا آج اپنے آپ کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا رہی ہے سوائے اسکے کہ کب قدرت کو اپنی سب قیمتی تخلیق پر رحم آجائے اور یہ کرونا نامی وائرس اپنی موت مر جائے لیکن خوف اس بات کا ہے کہ اب سے پہلے تک زمین والوں نے قدرت کے کاموں میں مداخلت کی ساری حدیں پار کرلیں تو کہیں اب قدرت ایسی حد نا لگا دے جو زمین والوں کی پہنچ کے آس پاس بھی نا ہو۔

بات ہمیشہ ہی معلوم سے نامعلوم کی طرف نکل جاتی ہے ۔ ہم نے جو موضوع چنا ہے اسکا سبب یہ ترغیب دینا ہے کہ اپنے لوگوں سے رابطے میں رہیں جہاں تک آپ دور جدید کی فراہم کردہ سہولیات کی بدولت جا سکتے ہیں جائیں ۔ ہ میں اس بات کا خیال اسلئے بھی آیا کہ ہم دوران محصور اپنے اہل خانہ کیساتھ کبھی ویڈیو پر تو کبھی صرف آواز پر رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ اس کوشش کیساتھ کہ اپنے اہل وعیال کو اس وباء سے محفوظ رکھا جا سکے ۔ یہ جڑنے کا بہترین وقت ہے سارے گلے شکوے بیٹھ کر ختم کر ڈالیں اپنی اپنی صفائیاں پیش کردیں اور جو درمیاں فاصلے ہیں انہیں مٹانے کا بہترین وقت ہے۔

اپنے آپ کو یہ  باور کراتے رہیں کہ موت  کبھی  بھی اور کہیں  بھی آسکتی ہے اور ایسے حالات میں اگر ہمیں بالمشافہ ملاقات کا وقت میسر نہیں ہے تو یہ سہولیات بھی قدرت کی فراہم کردہ ہیں ان سے استفادہ کرتے ہوئے  ایک دوسرے سے رابطے قائم کریں اور برملا گزشتہ ناچاقیوں پر ایک دوسرے کو معاف کریں ۔ وقت نے مہلت  دے رکھی ہے تو فائدہ اٹھا لیں ۔ اللہ تعالی جلد ازجلد ہماری زمین کو اس کرونا نامی دہشت گرد سے نجات دلادے کیونکہ ہمارے بس میں نا پہلے کچھ تھا اور نا اب کچھ ہے ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں