آپ بھی ہیرو بن سکتے ہیں

ابن رشد کے اس مقولہ کو جب عصرِ حاضر کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو مجھے اس کے حقیقت پسند،زمانہ شناس اورمعاشرتی نباض ہونے کا یقین سا ہونے لگتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اگر تم جاہلوں پرحکومت کرنا چاہتے ہوں تو مذہب کا لبادہ اوڑھ لو۔اگر مذاہب عالم کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے زیادہ لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر بلیک میل کیا گیا ہے،اگر ہم صرف عیسائیت کی بات کریں تو کیتھولک فرقہ کواس قدر اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ پوپ کے حکامات کی قدرومنزلت بادشاہ کی طرف سے جاری کردہ شاہی احکامات سے بھی زیادہ خیال کی جاتی تھی جس کی ایک دلیل1933میں کوپر نیکس تھیوری کہ زمین نظام شمسی کا مرکز ہے گلیلیو کی طرف سے چیلنج ہے کہ جس نے کہا کہ زمین نہیں بلکہ سورج اس نظام کا مرکز ہے۔

چونکہ مذہب طاقتور تھا اس لئے گلیلیو کو اس جرم کی پاداش میں کہ یہ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے اس لئے اسے گھر میں ہی مقید کردیا جائے اور چشم فلک نے دیکھا اور کتب التواریخ میں ایسے ہی محفوظ ہوا کہ گلیلیو اپنے ہی گھر میں قید زندگی کی سانسوں کی ڈور سے آزاد ہو کر ملک ِ عدم کو سنوارا۔گویا یہ محض نظریات میں تفاوت کی بنا پر نہیں بلکہ انسانیت کی تذلیل کا ایک منہ بولتا ثبوت تھا جس کا فائدہ مذہب کے علمبردار اٹھاتے آئے ہیں۔

لیکن اگر مذہب اسلام کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس مذہب کی روح اس ایک فقرہ میں مضمر دکھائی دیتی ہے کہ انسان عبادات سے نہیں معاملات سے پہچانا جاتا ہے۔قرآن واحادیث اور کتب التواریخ وسیرت نگاری اس موضوع پر تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کے لئے ہی ہیں لیکن آقاؐ کی حیات طیبہ سے ایک روائت ہی موضوع کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔

ایک بار آقاؐ اپنے جانثاروں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک صحابی سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ؐ فلاح شخص بہت اچھا ہے،آپ ؐ نے پوچھا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ،جواب ملا کہ نہیں،پھر پوچھا کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی معاملہ یعنی لین دین کیا ہے،پھر سے جواب ملا کہ نہیں،اس پر آپ ؐ نے فرمایا کہ پھر تم نے کس طرح سوچ لیا کہ یہ شخص بہت اچھاہے۔اگر اس واقعہ پر غور فرمائیں تو پتہ چلتا ہے کہ انسانیت اور انسانوں کے ساتھ معاملات کی معراج اسلام کا خاصہ ہے۔

عالمگیر مذہب ہونے کا شرف اسلام کو ایسے ہی حاصل نہیں ہوا،اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ایثار اور رواداری کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، جیسا کہ ایک صحابی رسول ؐ کھجور کا ایک ٹوکرہ لے کر حاضر ہوا کہ اے اللہ کے رسولؐ یہ کھجور میری ضرورت سے زائد ہے لہذا میں اسے اللہ کی راہ میں خیرات کرنا چاہتا ہوں تو آپ ؐ نے فرمایا کہ مدینہ کی گلیوں میں جائوں اور ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کے حوالہ کردو،وہ صحابی شام کو پھر سے حاضر ہوتا ہے اور فرماتا ہے یا رسول اللہ ؐ میں جس شخص کے پاس بھی گیا ہوں اس نے کہا کہ میرے پاس آج کی ضرورت کا ہے لہذا تم یہ کسی اور ضرورتمند کو دے دو،شام ہونے کو آئی ہےاور ٹوکرہ ویسے ہی بھرے کا بھرا ہوا ہے۔تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اس کے حقدار تم ہی ہو واپس لے جائو اور خاندان میں تقسیم کردو،فاطمہ بنت عبداللہ کا واقعہ اور ایسے بے شمار واقعات سے تاریخ اسلام بھری ہوئی ہے۔

واقعہ ہجرت بھی ہمارے سامنے ہے کہ جس میں ہجرت سے قبل آقاؐ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور کہا کہ یہ امانتیں مکہ والوں کی ہے کل صبح تم یہ امانتداروں کے حوالہ کر کے مدینہ چلے آنا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اگر ملک میں کرونا کی صورت میں وبائی مرض ّگیا ہے تو ہمیں ہر بات میں حکومت وقت پر الزام تراشی کی بجائے اسلام کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے کچھ اور نہیں بس اپنے دائیں بائیں اور سامنے پیچھے دیکھنا ہے کہ کوئی ضرورتمند حاجت مند،بھوکا پیاسا پڑوسی تو نہیں ہے،کیونکہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی آپؐ  نے فرمایا کہ مجھے تو ایک وقت میں خدشہ ہونے لگا کہ کہیں وراثت میں پڑوسیوں کو بھی حقدار نہ ٹھہرا دیا جائے۔

اسلام نے پڑوسیوں کی تین اقسام بیان فرمائی ہیں۔ایک الجار ذی القربیٰ یعنی جو پڑوسی بھی ہو اگر قرابت مند بھی سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق ہے،اس کے بعد الجار الجنب،یعنی اجنبی پڑوسی،قرابت مند کے بعد اس کا درجہ آتا ہے،اس کے بعد تیسرے نمبر پر ،الصاحب باالجنب یعنی جو سفر وحضر میں کسی کا ساتھی یا ہم نشین بن گیا ہو،اگر ہم اس مصیبت ومشکل کی گھڑی میں بس اسلام کے اس ایک جزو پر ہی عمل پیرا ہو جائیں تو یقین جانیں کوئی بھی بھوکا،مفلس اور غریب کبھی بھی بھوکا نہیں سوئے گا۔

ہمیں تو صابن کی ایک ڈبیہ خیرات کرتے ہوئے اس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک کہ اس کی سیلفی سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہ کردیں۔ہمیں تو اسلام نے پیدا ہوتے ہی ہیرو بنا دیا یہ کہہ کر کہ خیرات کرو خواہ ایک مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو۔گویا ہیرو بننے کے لئے ضروری نہیں کہ ہم نے ایک ہزار خاندانوں کو کھانا دیا یا راشن بانٹا بلکہ ہیرو بننے کے لئے بس ہمیں اپنے گردونواح میں دیکھنا ہے اور اپنی بساط کے مطابق خدمت کر دینی ہے۔اسلام تو بلکہ کھجور کی پوٹلی پر بھی اتنا ہی اجر عطا کرتا ہے جتنا کہ ڈھیروں تقسیم کرنے پر،یہی تو خوبی ہے میرے اسلام کی کہ اللہ نے خیرات وصدقات کی صورت میں ہمیں اپنی اور انسانیت کی فلاح کی کنجی ہمارے ہاتھ میں عطا کردی۔

صدقہ دینے سے قبر کے عذاب سے نجات،آخرت کا سنوارنا اور روز محشر میں سایہ کی فراہمی کا ذریعہ ہوگا۔اور کیا چاہئے بس ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق آج ہی سے اس پر عمل پیرا ہوجانا ہے،حکومت خیال کرے یا نہ کرے ہمیں اپنوں کا خیال کرنا ہے،خواہ مٹھی بھر ہی کیوں نہ ہو۔اللہ توفیق عطا فرمائے۔

اللہ کے ہاں تو اس کو اجر زیادہ ہے جو ایک ہاتھ سے خیرات کرتا ہے اور دوسرے ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہونے دیتا،گویا صدقہ یا خیرات کے قبول ہونے میں خامشی تشہیر سے بہتر ہے۔جو احباب تشہیر کرتے ہیں ان کے شعور میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ وہ ایسا کرنے سے معاشرہ میں اعلی مقام کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے،بلاشبہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن کچھ دیر کے لئے سوچو کہ ہم اس طرح کی نیکی برضائے الہی،خوشنودی باری تعالیٰ کے لئے کر رہے ہیں کہ ذاتی تشہیر کے لئے،اگر تو اجر انسانوں نے دینا ہے تو پھر بھلے جتنی چاہیں نمود ونمائش کریں اور اگراس کی طلب دربار الہیٰ سے چاہئے تو پھر وہ تو بے حساب عطا کرتا ہے۔

وہ نہیں دیکھتا کہ اشیا کی مقدار وتعداد کتنی تھی بلکہ وہ تو نیت کا حال دیکھ کر بحرِ اجر عطا فرما دیتا ہے،گویا ہمارا اللہ کے ہاں ہیرو بننا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔اب ہماری مرضی ہے کہ بے جا نمود سے اعمال ضائع کرنے ہیں یا خاموشی سے ضرورت مند بھائیوں کی مدد سے اپنے آپ کو اللہ کے دربار میں مقرب اور ہیرو بنانا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں