حضرت علی ؓ کا قول مبارکہ ہے کہ ’’جس پر احسان کرو،اس کے شر سے بچو‘‘۔اس سلسلے میں مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنی معرکتہ الآرا مثنوی میں یہ حکایت بیان کی ہے کہ ایک لومڑی جنگل میں سیر کر رہی تھی کہ تیز بارش شروع ہو گئی اور وہ پھسل کر پانی سے بھرے ایک گڑھے میں جا گری اور لاکھ کوشش کے باوجود براہر نہ نکل سکی۔وہ زندگی سے مایوس ہو چکی تھی کہ اچانک اسے ایک بکری آتی ہوئی نظر آئی اور اس کے ہوشیار دماغ نے تدبیر سوچ لی۔
بکری پیاسی تھی ، گڑھے میں پانی دیکھ کر ’’کہنے لگی‘‘میرا تو پیاس سے برا حال ہے۔گڑھے میں موجود لومڑی نے اس سے کہا ’’بی بکری !بہت پانی ہے ۔تم اندر آئو اور جی بھر کر پی لو ۔کم عقل بکری فوراً گڑھے میں کود پڑی ۔جب پیاس بجھی تو ہوش آیا اور گڑھے سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگی ۔لومڑی نے کہا ’’تم اپنے پائوں اوپر رکھو۔میں تم پر پائو رکھ کر باہر نکل جاتی ہوں اور پھر تمہیں ٹانگوں سے اوپر کھینچ لو گی۔بکری پھر اس کے دھوکے میں آ گئی ،لومڑی تو باہر چلی گئی مگر بکری کو نہ نکالا اور رفو چکر ہو گئی اور بکری موت کے منہ میں چلی گئی۔
جہانگیر ترین کے ساتھ عمران خان نے بالکل لومڑی جیسا کام کیا ہے ۔عمران خان نے اپنے اقتدار کے حصول کے لئے جہانگیر ترین کو خوب استعمال کیا،اب جب کہ ان کی ضرورت نہیں رہی اور انہیں بہت سے جہانگیر ترین مل گئے،چناں چہ انہیں ڈبو کر مارنے کا پروگرام بنا لیا۔اسی لئے بزرگوں نے کہا ہے کہ برے آدمی کے ساتھ نیکی کرنا نیک آدمی کے ساتھ برائی کرنے کے مترادف ہے۔لہذا نیکی بھی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیوں کہ ظالم کے ساتھ نیکی کرنا اور اسے معاف کرنا مظلوم کے ساتھ ظلم ہے ۔جہانگیر سے یہ غلطی ہو چکی ہے ۔انہوں نے جس کے لئے اپنی سیاسی کیرئیر کی قربانی دی،اسی نے اندھیرے گھڑے میں پھینک دیا۔
اس وقت جہانگیر ترین بہت اچھا تھا جب اربوں روپے لگاکرعمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لئے جوڑ توڑ کر رہا تھا۔دھرنے کے فلاپ شو کو کامیاب بنانے کے لئے یہی جہانگیر ترین تھا جس نے ہر وہ کام کیا جو انہیں شاید زیب بھی نہیں دیتا تھا۔اس وقت وہ کرپٹ نہیں تھا جب مقتدراداروں کے درمیان برج کا کام کر رہا تھا۔جہانگیر اس وقت بھی بہت پیارا تھا جب شوگرمافیا اور دوسرے مافیاز کے لوگوں کو جہازوں میں بھر بھر کر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال رہا تھا۔جہانگیر ترین اس وقت بھی بہت اچھا تھا جب خود کا سیاسی مستقبل بچانے کے لئےاس کے سیاسی کیرئیر کو گل کر دیا۔
لیکن آج وہی جہانگیر ترین جس نے ہرقدم پر عمران خان پر احسانات کی بارش کی، اسے ہر موقع پر اپنا کندھا دیا۔اسے اندھیرے گڑھے سے باہر نکالا،کیوں کہ اگر وہ اس اندھیرے گھڑے میں کچھ دیر اور گزارے تو موت ان کا مقدر بن جاتی ۔اپنی زندگی بچانے کے لئے ایک بار پھر جہانگیر ترین کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے،مگر ہر بار نہیں ،اس بار یار مقابلے پر آ چکا ہے۔کیوں کہ جہانگیر ترین سمجھ گئے ہیں کہ اس دل دار نے انہیں ایسا زخم دیے ہیں کہ پوچھئے مت؛ اس مصیبت کی گھڑی میں بھی زبردست دھوکا دیا اور اپنے یار کو عتابوں کا شکار ہونے کی دھمکی تک دے ڈالی ’’میری بلی مجھے میاؤں‘‘پر جہانگیر ترین گرمی کھا چکے ہیں ۔
عمران خان امید رکھتے تھے کہ جہانگیر ترین مصلحتوں کا شکار ہو کر ماضی کی طرح خاموشی اختیار کر جائیں گے ۔جیسے اپوزیشن کی چند ایک فائلوں کو حرکت میں لا کر انہیں جیلوں کی ہواکھلوائی ہے،جہانگیر ترین یہ عمل سوچ کر ہی خوف ذدہ ہو جائیں گے،مگر عمل اس کے الٹ ہوا۔چینی اور آٹے کے بحران کے سکینڈل میں جہانگیر ترین کو نشانہ بنا کر اپنی لٹی ہوئی سیاسی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش مہنگی پڑ رہی ہے۔
یہ تحقیقاتی رپورٹ دو ماہ پہلے وزیراعظم کو ملتی ہے،مگر اس کا کسی کو انکشاف نہیں ہوتا۔پھر اچانک یہ خبر بریک ہوتی ہے اور رپورٹ ہر خاص و عام کی زبان پر آ جاتی ہے،جب کہ فرانزک کے بعد حتمی رپورٹ ابھی بننا باقی ہے جو کہ 25اپریل کو سامنے آئے گی ۔لیکن اس سے پہلے ہی جہانگیر ترین کو جس انداز میں ٹارگٹ کیا گیا ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔جس میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کے بہت سے رازوں کے عینی شاہد ہیں۔پھر وہ خود ساختہ نائب وزیر اعظم کی طرح کا انداز اپنا چکے تھے۔اسی وجہ سے پارٹی کے اندر اور بیوروکریسی میں انہیں نا پسند کیا جا رہا تھا۔عمران خان کے سمجھانے اور انہیں تھوڑا دور کرنے کے باوجود ان کی حرکات قابو سے باہر ہوتی جا رہی تھی ۔اسی وجہ سے جہانگیر ترین کو مکمل طور پر کنارہ کشی کی جانب دھکیلا گیا۔
اس نا مکمل رپورٹ کو بریک کرنے پر ملک میں ایک سیاسی بحران ابھر کر سامنے آیا ہے۔جسے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے عمران خان اور اپوزیشن قائدین اپنا اپنا زور لگا رہے ہیں ۔وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے بعض وزراء کے محکمے بدل کر خود احتسابی کی تاریخی مثال قائم کرنے کا منچلا دعویٰ کر دیا ہے،مگر بادی النظر میں اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ میرے وزراء کرپشن میں ملوث ہیں ۔لیکن انہیں سزا صرف تبدیلی قلم دان ہوئی۔اگر ان سے اس بے پروا انداز کا سبب پوچھ لیا تو فرمانے لگے کہ کیوں کہ ابھی فرانزک رپورٹ نہیں آئی،فرانزک انکوائری آنے پر سخت کارروائی کریں گے۔لیکن جہانگیرترین کا جس طرح میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے،اس کے بعد اگر انہیں تمام الزامات سے برات مل بھی جائے تو عمران خان کی سیاسی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی۔ان حالات میں عمران خان کا پسندیدہ عمل ’’یو ٹرن‘‘ممکن نہیں۔جہانگیر ترین سوچ ضرور رہے ہوں گے کہ ان کے دل دار نے ان کی محبت کا صلہ تو خوب دیا ہے۔
کیا پھر عمران خان ’’تاریخ رقم‘‘کرنے جا رہے ہیں؟آج یہ سوال لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو اس کے حکومت پر منفی سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟ان سوالات کے جواب لیتے ہوئے یاد رہے کہ مشکوک انداز سے ایف آئی اے کی رپورٹ کا اجراء اور اس کا ٹائم فریم بہت اہم ہے ۔ایک طرف حکومت کی دو سالہ ناکامیاں اور دوسری طرف کورونا وائرس جیسی عالمی وبا کے خلاف اقدامات کی بجائے حکومت کا سیاسی مخالفین تک ٹارگٹ رکھنا،بڑے بحران کی نشاندہی کر رہا ہے۔عمران خان چند ’’بکروں‘‘کی قربانی دیں گے۔جہانگیر ترین ،خسرو بختیار ،عثمان بزدار کو قربان کرنے کی تیاری کر رہے ہے۔چند صنعتی اور تجارتی گروپ،اعلیٰ سرکاری اہلکار بھی مورد الزام ٹھہرائے جائیں گے۔
ان حالات میں حکومت پر منفی سیاسی اثرات فی الفور ہوں گے۔جس میں حکومت کا تسلسل ختم ہونے کا خدشہ بہرحال موجود ہے۔اس سلسے میں مقتدر حلقے کا کردارنظر آنا شروع ہو چکا ہے۔عمران خان کا مقصد ایک بار اقتدار پر براجماں ہونا تھا جو پورا ہو چکا ہے۔اس سے آگے انہیں کچھ نہیں چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی اقتدار کی قربانی دے سکتے ہیں۔ ان حالت میں اپنے ساتھی وزراء کے خلاف کارروائی کر کے حکومت سے باہر آ جائیں۔اس طرح سیاسی شہید کا تمغہ سینے پر سجا لیں گے ۔عمران خان کے لئے اقتدار میں رہنا محال ہے ۔لگتا ہے کہ وہ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں،ایسی لئے ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں ،مگر موجودہ حالات جب کہ کورونا نے معاشی سیاسی انحطاط کی وجہ سے اسمبلیوں میں نئی حکومت سازی ممکن نہیں لگتی۔یہ ملک و قوم کے لئے واقعی مخدوش حالات ہیں ۔
ایسے میں ہمیں من حیث القوم سوچ بچار کی ضرورت ہے، یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کی ترقی کی راہیں مسدود و مصلوب کرنی ہوتی ہیں یا اسے ذلیل و رسوا کرنا مطلوب ہوتا ہے ،تو وہاںکی سیاسی طاقتیں ،مفاد پرست افراد اپنی مشنریوں کے ذریعے بڑی ہوشیاری سے اس معاشرے کو ذہنی اور فکری طور پر مفلوج و اپاہج کرنے کی سعی کرتے ہیں۔پھر ان کے خلاف منصوبہ بندی کے ساتھ سازشیں کی جاتی ہیں ۔نا کردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
آج ہم انہیں حالات سے گزر رہے ہیں ۔نفرت ور تعصب کا رویہ دانستہ طور پر اپنایا گیا ہے ۔ایک طرف شہر خاموش ہیں ، شاہراہیں زندگی کی حرکت کو ترس رہی ہیں ۔ہر طرف مایوسی کا سماں ہے،مگر ہم پر مسلط کئے ہوئے حکمران اپنے اقتدار یا سیاسی ساکھ کو بچانے پر توجہ دیے ہوئے ہیں ۔سازشیں ہو رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا کہر ان کی نظر سے بالاتر ہے۔الٰہی یہ کیسی آزمائش ہے؟ہر طرف بے کسی کی چاندنی بکھر چکی ہے،نظام حیات مفلوج ہو کر رہ گیا ہے،یہاں تک کہ ابن آدم تک دوریاں پیدا ہو گئی ہیں۔آج بھی ہم نے ایک دوسرے کو سنبھالا نہ دیا تو خدا نہ کرے بہت بڑا سانحہ رونما ہو جائے گا۔