بچپن میں ہم نے بہت سی کہانیاں سنی تھیں اور پڑھی بھی تھیں کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی کتنی کار آمد ہوتی ہیں جبکہ بے جان چیزیں بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہیں مثلاً چھری نہ ہو تو کوئی سخت پھل کاٹے بنا کھایا نہیں جا سکتا ۔ ایک ٹائٹ بند ڈبہ ذرا سی چیز ، چمچے کے پچھلے حصے سے کھولا جا سکتا ہے ۔ منی سی کیل بھی بنا ہتھوڑی دو چیزوں کو نہیں جوڑ سکتی ۔
بالکل اسی طرح جاندار چیزیں ، چیونٹیاں ، مکھیاں ، پھول یہاں تک کہ پھول کی ڈنڈی سے جڑے کانٹے بھی اس کی حفاظت کیلئے ہوتے ہیں۔ ہم نے علامہ اقبال کی ایک نظم پڑھی تھی جس میں جگنو اور بلبل کا قصہ تھا کہ چھوٹا سا جگنو کس طرح بلبل کی اندھیری راہ کو روشن کرکے اس کیلئے آسانی پیدا کرتا ہے اور سبق یہ تھا کہ ؎
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے
کتنی سی نظم کتنا بڑا سبق ! ہر ایک کیلیے ۔ سبحان اللہ! یہ بھی تو سبق در سبق ہے جو منتقل ہوتے ہوتے ہم تک اور آگے آنے والی نسلوں تک چلا جاتا ہے ۔ کچھ نظمیں ایسی ہوتی ہیں جبکہ ان کے شاعر کا نام تک نہیں ہوتا مگر وہ اتنی مئوثر ہوتی ہیں کہ مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔
آ ج ساری دنیا میں دولت ہے، ٹیکنالوجی ہے آ سائش کی ہر چیز ہے ۔ ایک کلینک پر دنیا ناچ رہی ہے مگر انسان بھول رہا ہے کہ اسی ایک کلینک پر وہ خود بھی بے بس ہو سکتا ہے ۔ اپنی اس مادری ترقی اور خوشحالی پر اپنی تعمیرات پر ، اپنی قابلیت پر کبھی بھی غرور نہ کریں نہ اس کی وجہ سے دوسروں کا مذاق اڑائیں یا تکلیف دیں ۔
اپنے اعمال پر غور کریں ۔ ساری دنیا میں اگر سکون ہے تو وہ عدل کی وجہ سے اگر والدین دو بچوں کے درمیان بھی عدل نہ کریں تو چھوٹے چھوٹے بچے تک والدین سے بدظن ہو جاتے ہیں اور برائیوں کی طرف نکل آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف جانداروں کی مختلف خصوصیات سے نوازا ہے ۔
لال بیگ کے اتنے چھوٹے چھوٹے بچے کیسے رات میں یا دن میں بھی کسی بوتل یا ڈبے کے سائے میں چھپے ہوتے ہیں اور اپنی مخصوص غذا کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اتنا سا جانور کتنا قابل اندھیرے میں اپنی غذا پہچان کر چپ چاپ اپنا کام کر جا تا ہے بالکل اسی طرح دیگر چھوٹی مخلوقات مستقل اپنا کام کرتی ہیں ۔
بلی دیکھیں کتنی آنکھیں اس کی اندھیرے میں بھی چمکتی ہیں کیا آپ کا ٹارچ ہوگا ؟ اور کیا موبائل کی لائٹ ؟ اللہ ہی کی شان یہ سب نظر میں رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے انسانوں کے روئیے دیکھیں اپنے روئیے کو بھی شامل کرلیں ۔ وہ گورا، کالا، وہ امیر ، وہ غریب ، وہ سلمان وہ غیر مسلم کہنے کو سب انسان سلوک دیکھ لیں ؟ تعصب دیکھ لیں اور پھر رد عمل دیکھ لیں۔
بالکل ایسی ادنیٰ سے جانداروں کی طرح انہوں نے بھی مسلمانوں کو کمتر بے حیثیت سمجھا ۔ 80ہزار کشمیریوں کی اب تک بند ش کیسا اقدام ہے ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے شاید ہم سب بھی جنہوں نے رب کی نہ مانی ۔ مظلوموں کا ساتھ خلوص نیت سے نہ دیا ۔ ہم پاکستانیوں نے ہی کیا ساری دنیا کے مسلمانوں نے نہ دیا ۔
بہت معمولی سمجھا جب مظلوموں کی مدد نہ کی تو خودظالموں میں آگئے ، کہنے کو بہت کچھ ہم کر جاتے ہیں دوسرے کو کمتر جانتے ہیں یہی تو تکبر ہے ہر جگہ سیاست جو کہ ایک پاکیزہ نظام ہے اس کو ہم نے دوسرا ہی رنگ دے دیا ہے اور اسی رنگ کے معنوں میں سیاست چمکائے پھرتے ہیں مطلب دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں تو جب رب کی پکڑ آتی ہے تو گھن کے ساتھ جو بھی پس جاتا ہے پھر ہم معصوم بنتے ہیں واقعی کل کسی نے کتنی اچھی شاعری بھیجی کہ ؎
خدا ہماری کیونکر سنے کیا ہم نے خدا کی مانی ہے
غور کرنے کا مقام ہے ہم جب جب جہاں جہاں ڈنڈی مار کر کام کرتے ہیں۔ دوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں جب ہی ان کی بے عزتی کرتے ہیں جبکہ رب کی شان دیکھیں رسی کتنی دراز کر کے موقع پہ موقع دیئے جا رہا ہے کہ پلٹ آئو۔ تکبر تو رب کو زیب دیتا ہے یہ اس کی صفت ہے ہمیں تو وہ عیب دیگا ویسے بھی مسلمان جگہ جگہ اپنی بداعمالیوں اور کوتا ہیوں سے پِٹ رہے ہیں ورنہ ہماری تاریخ تو بڑی حسین ہے بقول اسی شاعر کے کہ ؎
یہ حال و احوال ہمارے یہ ہمارے اعمال کی مہربانی ہے
ابھی ایک نہ نظر آنے وا لے وائرس نے سب کو قدرت کا قانون بلکہ قوانین کا پابند بنا دیا ۔ سوچنے کی بات ہے جان جانے کے خوف سے اپنے ہی گھروں میں قید کردئیے گئے بلا دیکھے صرف موت کی نشانیوں کو دیکھ کر وائرس کے جان لیوا اثرات کو قبول کیا نا ؟
حیرت کی بات ہے اس وائرس اور پھر اتنے بڑے انسان بلکہ پوری دنیا کے انسانو ن کا مشترکہ موت سے اتفاق کیا ِ لمحہ فکریہ نہیں ؟ کہ ایک غیبی طاقت “اللہ ہی خالق کائنات ہے ڈور اس کے ہاتھ ہے دوڑ اس نے لگوائی ہے تا کہ محتاط ہوجائیں سنور جائیں وہی موقع پہ موقع دیئے جا رہا ہے کیا اب بھی نہ سمجھو گے ؟ آپ کا رب ظالم نہیں ہے وہ آپ سے بہت محبت کرتا ہے ۔
مشکلات سے گزار کر وہ آپکو اور زیادہ مضبوط بنائے گا لیکن یقین اور استقامت درکار ہے صبر اور نیک نیتی درکار ہے ۔ اعمال کی درستگی انسانیت درکار ہے جو ایک دو دن کیلئے تا حیات ہے ۔ آپکا شناختی کارڈ ساٹھ سال کے بعد دوبارہ نہیں بنتا بلکہ لکھا ہوتا ہے تا حیات یعنی ایک لمبی عمر پالی اب بونس لائف ہے ۔
“نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے “
اس طرح ہمیں یہ بھلائی کا کام ہر کسی کے ساتھ ہمیشہ کرتے رہنا ہے ۔ رب کی ماننی ہے ہمیشہ ہر جگہ ہر وقت اور منوانی ہے ۔ اس پر جو اجر ملے گا اس پر آپ انشاء اللہ تکلیف کو بھول جائینگے۔ اللہ پر یقین رکھیں وہ بہت مہربان ہے۔ اپنا محاسبہ کرنے کو رب کو راضی کرنے میں دیر نہ کرین زندگی کی مہلت کو غنیمت جانیں ۔
دنیا تو ہے ہی امتحان گا ہ اپنا رب سے تعلق مضبوط بنائیں اپنا ایمان یقینی بنائیں ؎
یقیں کی بات کہو تو یقین سے کہتا ہوں ہر ایک گام پہ منزل ہے آدمی کیلئے
اللہ ہمیں وہ منزل عطا فرمائے ۔ (آمین)