اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آج گزرتے لمحات کے ساتھ دنیا میں آئی سیریل کی بارہویں وبا کرونا وائر س (اِس سے قبل دنیا میں گیارہ وبائیں(امراض) مختلف اشکال میں آچکی ہیں۔ جن سےکروڑوں اوراربوں اِنسان لقمہ اجل بن گئے )نے ساری دنیا میں اپنی ہولناکی اور اِنسانوں کی عبرتناک موت کے پنچے گاڑلئے ہیں ، اِدھر سے اُدھر تک دوسو سے زائد ممالک اِس سے متاثرہیں۔ تو وہیں دنیا کے 40کے قریب علاقے ایسے بھی ہیں۔ جہاں ابھی تک ایک بھی کرونا کا کیس سامنے نہیں آیاہے۔ اِس وائر س سے دنیا کا ہر اِنسان ایک خوف میں مبتلاہے ، ہر کسی کواپنی لاچارگی والی موت کے بعد تدفین کا درناک منظرکھلی آنکھوں نظر آرہاہے۔ یقینی طور پردنیا کا ہر فرد اپنے انجام سے باخبر ہے۔
مگربڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری قوم میں بہت سے ایسے ہیں۔ جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی لنڈن پپو(باو لے )بنے اپنے درد ناک انجانے سے بے خبر ہیں۔ سب کچھ مذاق میں اُڑاکر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کئے ہوئے ہیں۔انا اور ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ تفتان ، تبلیغ جماعت اور لاک ڈاون کرنے اور نہ کرنے والے معاملے کو ہوا دے کر اپنی سیاست و حکمرانی اور اپوزیشن و صوبوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی ضدوہٹ دھرمی پر قائم ہیں ۔جب کہ موجوہ حالات اور نازکت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اُ وپر سے نیچے تک سب کو کرونا وائر س سے مقابلے کے لئے یک جان اور یک زبان ہوکر ایک پیچ پر ہونا چاہئے تھا؛ جو کہ اَبھی تک ایسا ہوتا دِکھائی نہیں دے رہاہے۔
جا بجا محسوس ہورہاہے کہ جیسے سب ہی کروناوائرس کی اِس وبائی آزمائش سے اپنی احتیاط کرنے کی بجائے؛ صریحاََ لاپرواہی کا مظاہرہ اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کرکر رہے ہیں ۔ایسا کرنا اور سوچنا ایک طرف خلافِ شریعت بھی ہے۔ تو دوسری جانب غیراخلاقی رویہ بھی ہے۔جس احتیاط کے کرنے کا پابند کیا جارہاہے اِس پر سب کو عمل کرناچاہئے ناکہ مذہب اور معیشت کی چادر تان کر اپنی اپنی چلائی جائے۔بہر کیف ،دنا کہتے ہیں کہ مچھلی کو پانی نظر نہیں آتاہے۔ اِس لئے کہ وہ دن رات پانی میں رہتی ہے۔
یکدم اِسی طرح ہماری پاکستانی بھی دنیا کی عجیب قوم ہے ؛ جو 72سالوں میں خطرات میں رہنے کی عادی ہوگئی ہے ،جِسے ہمیشہ لولی لنگڑی جمہوریت کے ہوتے ہوئے آمریت سے،میری غربت میں دھنسی قوم کو غربت سے ،مُلک میں کرپشن واقرباءپروی کو بڑھاوادے کر کرپشن اور اقرباءپروی سے، بھوک وافلاس میں جکڑ کر بھوک و افلاس سے اورسِول اور آمر حکمرانوں نے دیدہ دانستہ مُلک اور قوم کو دوسروں کی جنگ کا حصہ بنا کر دہشت گردی اورقتل و غارت گری کی بے لگامی کے خطرات کی گود میں پالاہے۔
چنانچہ آج پاکستانی قوم نظر آنے اور نظرنہ آنے والے ہر قسم کے ظاہر و باطن خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے۔ اِنہیں سمجھے بغیر اِن سے کھیلنے کی عادی ہوگئی ہے، حالاں کہ خطرہ ہو یا خطرات اِن کے بڑے بھیانک نتائج ہوتے ہیں، جنہیں ہمیشہ کسی ایک کی غلطی کی وجہ سے پوری قوم کو خمیازہ بھگتناپڑتاہے۔آج کرونا وائرس کی المناکی کو سمجھے اور ناسمجھے بغیر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے پر چل رہی ہیں۔ صوبے لاک ڈاون سے ہونے والے طویل فوائد پر متفق ہیں۔
جبکہ وفاق پہلے ہی دن سے مکمل لاک ڈاون اور کرفیو کو مُلکی معیشت اور مزدور اور روزانہ اُجرت کام کرنے والے والے طبقے کے لئے زہرقاتل سمجھتاہے۔ اِس معاملے پر صوبوں کی اپنی منطق ہے۔ اور وفاق کا اپنا ہی انوکھا راگ ہے۔ایسالگتا ہے کہ اَب جیسے ہماری قوم ایک عرصے سے بے سُرے گاویوں کو برداشت کرنے کی عادی ہوگئی ہے۔کرونا وائرس کے ایشو پر وفاقی حکومت کو صوبوں کے اچھے اقدامات اور حزبِ اختلاف کو وفاق کے غریب و مزدور طبقے کی ریلیف کے لئے اربوں کے مختص کئے جانے والے منصوبے نظرنہیں آرہے ہیں ۔گوکہ دونوں ہی جانب سے توُتواورمیں میں لگی ہوئی ہے۔
جبکہ اَب تک اِس عالمی سازش وشرارت یا آسمانی آزمائش سے نبردآزماہونے یا چھٹکارہ پانے کے لئے سِوائے مکمل و جزوی لاک ڈاون ،سوشل رابطے کو محدود کرنے ،چہرے پر ماسک لگانے، کھانسی اور چھینکتے وقت رمال اور ٹشو کے استعمال اوروقفے وقفے سے بیس سیکنڈ تک اچھے صابن سے بار بار ہاتھ دھونے ، سینیٹائزرکے استعمال کی عوام الناس کو ترغیب دینے کے پاکستان و امریکا سمیت کسی کے پاس کوئی دیر پا لائحہ عمل نہیں ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے کرونا وائر س کی نازل ہونے والی ناگہانی آزمائش کے سامنے پوری دنیا بے بس اور لاچارہوگئی ہے ۔
دنیا کو اپنی طاقت اور حکمت سے غلام بنانے والے ممالک بھی دانستہ یا پھر مصنوعی طور پر کرونا وائرس کی تباہی پر پر ہاتھ باندھے کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اِس کے خلاف اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے تک دنیا کی ٹھیکدار بنی عالمی اور سپر طاقتیں کچھ اچھا نہ کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔آج ایسا کیوں ہے؟رونا وائر س سے ڈرنا نہیں سب کو لڑنا ہوگا ؛جب اِس سے لڑنے کی ہمت پیداکرلیں گے توپھرہمیں بہت جلد لگ پتہ جائے گا کہ اِس سارے معاملے کے درپردہ کس کے کیا مقاصد تھے ؟ اور کون کیا چاہتاتھا؟ دنیا پر حکومت کرنے میں کون کتنا کامیاب ہوا ہے؟ ناکامی کی دھول چاٹتے ہوئے کون اپنی طاقت اور گھمنڈ اور دورجدید کے نمرودی دعووں کا تناہوا برج زمین بوس کرچکاہے۔
بہرحال، اَب انتظار کی طویل گھڑیاں بہت جلدختم ہونے کو ہیں؟ لگتاہے کہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اِن سازشی زمینی نمرودی خداؤں کا بُت میرا مالک ربِ کائنات اللہ رب العزت ہی اپنے قہر وغضب سے پاش پاش کرے گا ؛کیوں کہ اِس نے ہمیشہ ایسے ہی شیطان کے چیلے چانٹوں اور زمینی نمرودوں کا بیڑاغرق کیا ہے۔ جنہوں نے زمینِ خدا پر اپنی نمرودی قائم کرنے کے لئے اِنسا ن اور اِنسانیت پر تاریخ ساز مظالم کی داستانیں رقم کی ہیں۔اِس مرتبہ بھی میرا ربِ حقیقی اللہ رب العزت کرونا وائرس کو تخلیق کرنے والے نمرودی شیطانوں کو نیست ونابود کرے گا ۔
اگرچہ اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ کروناوائرس سے متعلق ابھی تک بڑے ابہمام موجودہیں۔ کوئی اِسے طاقت ور ممالک کی دنیا بھرمیں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے اور اپنا یک سکہ رائج کرنے کی سازش قراردے رہاہے؛ تو کئی ایسے بھی ہیں ۔جو اِس عالمی وبا ءکو عذاب الٰہی کہہ رہے ہیں۔ غرض یہ کہ دنیا اِس کے تدراک کے لئے کچھ کرنے کی بجائے اِس بحث میں پڑکر بٹ گئی ہے کہ یہ کسی کی شرارت ہے یا عذابِ الٰہی ہے کچھ بھی ہے، مگر اِتنا ضرور ہے کہ اِس بیمار ی نے زمینِ خداپر خود کو سُپر طاقت گرداننے والوں سمیت کئی کمزوراور قرضوں پر پلنے والے ممالک کے بھی پیر اُکھاڑ دیئے ہیں۔ سب کی ہوانکال گئی ہے۔
اگرکروناوائرس کسی کی شرارت ہے ؟توبس اِتنی شرارت بہت ہوئی گئی ہے۔آج جہاں ساری دنیا عالمِ خوف میں مبتلاہے، خواہ دنیا کے امیر ممالک ہوں کہ غریب جو بھی ہیں۔ کبھی جس نےاُوجِ ثریا پرکمند ڈال دی ہو غرض یہ کہ خواہ کوئی بھی ہے؛ اورترقی و خوشحالی ، جنگی سازوسامان اورمعدنی دولت سے مالامال سُپر طاقتیں امریکا، لندن ،فرانس ، جرمنی ،اٹلی، اسپین ،سعودی عرب ، انڈیا ، پاکستان اور دیگرغریب ممالک ہی کیوں نہ ہوں۔یہاں ہونے والے مہینوںکے مکمل یاجزوی لاک ڈاون یا کرفیوکی سی صورت حال نے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کو زمین بوس کردیاہے۔
تووہیں اِس وائرس نے کئی معصوم اِنسانوں کو آغوشِ قبرمیںبھی پہنچادیاہے۔ اور کئی متاثرینِ وائرس بلک بلک کر سسک سسک کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑقبرکی منوں مٹی تلے جانے کے منتظرہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں کئی لاکھ ایسے بھی اِنسان ہیں۔ جو اِس مہلک اور جان لیوا وائرس سے بسترِ مرگ پڑے اِس وبائی وائرس سے مقابلہ کررہے ہیں۔ آج متاثرین کی تعدادتو لاکھوں میں ہے۔ مگر صحت یاب ہونے والوں کی مقدار آٹے میں مقدارِ نمک سے بھی کہیں کم ہے۔
جبکہ ماہرین طبیعات کی رائے ہے کہ کرونا وائرس جاندار نہیں ہے یہ کسی اِنسان میں منتقل ہوکر جاندار ہوجاتا ہے۔آج صرف ضرورت اِس امر کی ہے کہ بس ہجوم اور سوشل رابطے میں احتیاط برتی جائے تو اِس وائرس کو شکست دی جاسکتی ہے ۔مرنے کے امکانات تو کسی بھی وقت کسی بھی بیماری اور حوادث سے بھی ہیں۔مگر ہر معاملےمیں احتیاط کی جائے ؛تو مرنے سے زیادہ زندگی کا تناسب ہے ۔بس کروناوائرس سے محتاط رہنے والی آگاہی حاصل کی جائے؛ اور ماہرین طبیعات اور چین کے تجربات سے سیکھا جائے۔
اُن احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے؛جو بتائی جارہی ہیں۔ تو کروناوائرس کو اِس کی موت مارسکتے ہیں۔ ورنہ ہماری ذراسی بے احتیاطی اور قسمت کے لکھے پر عمل کرنے والا ہمارا عمل یقینی طور پر ہمیں لاچارگی والی موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ اور متاثرہ شخص اپنی ہی بے احتیاطی اور غلطیوں کی وجہ سے آغوشِ قبر میں منوں مٹی تلے خود لے جائے گا۔