یہ تصویر ایک دوست نے سینڈ کی تھی کہ قلم قبیلہ… یہ آپ کی پوسٹ ھے، اس پر کچھ لکھیں.
میں نے جب بھی ان بچوں پر، ان کے خال و خد پر، ان کی اسکولنگ پر، ان کے گھر پر ،ان کے کھانے پینے اور ان کے رہن سہن کے اطوار پر کچھ لکھنا چاہا میرا قلم کانپ اٹھتا.
بچوں پر نگاہ ٹکتی تو کچھ لکھتا نا…!!
جب بھی بچوں کے بارے لکھنے کیلئے ان کی طرف دیکھتا تو میری نگاہ بار بار نظام عدل کی ”ہائی اور سپریم“ عمارات اور ان میں کرسیوں پر بیٹھے سانس لیتے بتوں کی طرف،
پولیس کی مخصوص گھاڑت کی ٹوپیوں تلے افسروں کے کرخت چہروں کی طرف،
جرنیلوں کے سینے پہ سجے چمکیلے و نوکیلے تمغوں کی طرف،
چھم چھم کرتی گاڑیوں میں بیٹھے گرمی سردی کے احساس سے عاری مکروہ شکلوں والے نام نہاد “عوامی نمائندوں” کی طرف،
محروموں کو صبر کی تلقین کرنے اور امیروں کو شاکر کہنے والے مفتیوں کی طرف،
بڑے بڑے اسٹوروں کے موٹے موٹے تسبیح گھماتے سیٹھوں کی طرف
فیکٹریوں کارخانوں اور رئیل اسٹیٹس کی لوٹ مار کی آمدن سے مکروہ شکلوں والے مخیر حضرات کی طرف چلی جاتی اور میں بے بس ہوکر رہ جاتا.
میں ہر بار حوصلہ کرکے اپنے خیال کو جھٹک کے ان بچوں کی طرف دیکھتا تو لکھنے کو چند الفاظ کے بجائے ان جیسے لاکھوں بچوں کا ننگ دھڑنگ انبوه امڈ آتا
سو میری ان بچوں پر لکھنے کی ہر کاوش ناکام گئی، ہر بار مجتمع ہونے والا میرا حوصلہ ہار گیاا
اور
یہ بچے جیت گئے