ہم مایوس نہیں..ہونا بھی نہیں چاہیئے..تدبیر کے بعد توکل علی اللہ کرنیوالا کبھی مایوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہوتا۔انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ،دکھ پریشانی، مصائب وآزمائش، بیماری وتکالیف کب نہیں آتیں! محفوظ اور مامون رہنے کی خواہش سبھی کو ہوتی ہے، مگر زندگی کی ہر پریشانی اور ابتلاؤں سے ہر وقت نبرد آزما رہنا ہی پڑتا ہے۔بعض دفعہ اجتماعی لغزشوں کی سزا اجتماعی آفات اور وباؤں کی صورت میں سامنے آتی ہے،لیکن ان حالات میں ایک عام انسان اور ایک مومن کے رویئے میں فرق ضرور واضح ہونا چاہیئے۔
ایک عام انسان اگر افراتفری اور گھبراہٹ کا شکار ہے،حالات کی سختی سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے ،تو کیا اللہ پر ایمان و یقین کی دولت رکھنے والا بھی اسی طرز عمل کو اپنائےگا! یقیناََ نہیں۔صاحب اسلام تودنیاوی تدابیر اور اسباب اختیار کرنے کے بعد اپنے رب کی قدرت اور تقدیرسے ہرحال میں پرامید رہتا ہے..تمام اختیارات اور قدرتوں کے مالک اپنے رب سے ایک مسلمان کا تعلق صرف مشکل میں ہی نہیں بلکہ آسانی و خوشحالی کےدنوں میں بھی یکساں قربت کا ہی ہونا چاہیئے۔
آج اگر اس وقتی آزمائش نے ہمیں اپنے رب کے قریب کردیا ہے تو یہ بات خوش آئند ہے..لیکن اصل فکر اس بات کی ہونی چاہیئے کہ سختی اور تنگئ حالات کے گذر جانے کے بعد بھی ہمارا رب سے تعلق اسی طرح قائم ودائم رہتا ہے کہ نہیں۔سورہ یونس کی آیت نمبر ۱۲ میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ..انسان کاحال یہ ہے کہ جب اس پر کوئ سخت وقت آتا ہےتو کھڑے ,بیٹھے اور لیٹے ہمیں پکارتا ہے، مگر جب ہم اسکی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنےکسی برے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا..۔
اسطرح حد سے گزر جانیوالوں کیلیے انکے کرتوت خوشنما بنادیئے گئے ہیں.”یہ ناگوار طرز عمل کم از کم ایک مومن کا تو نہیں ہونا چاہیے۔مومن جس نے اپنے جان اور مال کو اللہ کی رضا کے سپرد کررکھا ہے وہ اچھے ,برے ہر وقت میں اپنے رب سے جڑا رہتا ہے..جبھی تو مایوس اور دل شکستہ نہیں ہوتا۔بس آج اس آزمائش کی گھڑی میں ذرا اپنے طرز عمل اور اللہ سے تعلق پر نظر دوڑائیے.کیا آسانی کے دنوں میں بھی تعلقات کی نوعیت یہی تھی .اور اس آزمائش کے گزرنے کے بعد بھی اللہ سے تعلق کی یہی نوعیت قائم رکھیں گے،اگر واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقین جانیں کہ فلاح پاگئے ہم ،اب کوئ مایوسی و ناامیدی نہیں۔خوشخبری یہ ہے کہ ..اَفلَحَ الْمؤمِنُونَ”..۔